اس سال کی سب سے بڑی خبر 21 اکتوبر 2023ء کو نواز شریف کا چار سال کے بعد پاکستان واپس آنا اور کامیاب جلسہ کرنا ہے۔ اس جلسے کے لیے میں تاریخی یا یادگار کے الفاظ استعمال نہیں کروں گی کیونکہ یہ ایک کامیاب جلسہ تھا۔ انتظامی امور کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو پاکستان مسلم لیگ نواز کو 100میں سے 100نمبر ملنے چاہیئں ۔ نواز شریف کی تقریر بہت متوازن تھی جس میں انہوں نے بہت سے حلقوں کو بہت سے پیغامات دیئے ان کا سب سے بڑا پیغام یہ تھا کہ سیاست دانوں کو مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے مزید تناؤ پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ نواز شریف نے پاکستان کے عوام کو امید کا پیغام دیا انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان کو اس مقام پر لا کھڑا کریں گے جہاں سے انہوں نے چھوڑا تھا وہ ایک ایسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جہاں مہنگائی نہ ہو بے روزگاری نہ ہو۔ نواز شریف کی تقریر میں سب سے زیادہ زور بجلی کے بلوں پر تھا۔ اس وقت عوام سب سے زیادہ بجلی کے بلوں سے پریشان ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریرمیں بلوں کا موازنہ بھی کیا کہ 2017ء میں بل کیا تھے اور 2022میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ڈالر کی قیمت میں کمی کرنے کا بھی وعدہ کیا کیونکہ دو ہی بڑی چیزیں اس وقت پاکستان کو درپیش ہیں ڈالر اور پٹرول کی قیمت میں اضافہ۔ ان دو مسائل کی وجہ سے تیسرا مسئلہ ان دونوں سے بڑا ہے وہ ہے بجلی کے بلوں میں اضافہ ہے۔ جب ڈالر کی قیمت زیادہ ہوگی تیل مہنگا ہوگا تو بجلی خود بخود ہی مہنگی ہو گئی۔ نواز شریف کی تقریر بہت اچھی تھی صرف دو تین مقامات پہ غلطیاں ہوئی ہیں ان سے ایک گھنٹے کی تقریر میں ایک موقع پہ جب وہ چینی کی قیمت کی بات کر رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ چینی کی قیمت کیا ہے 250روپے تو میرے خیال میں کسی کو انہیں آٹے چینی پٹرول اور ڈالر کی صحیح قیمتوں کے بارے میں آگاہ کر دینا چاہیے تھا اسی طرح وہ ڈالر کے بارے میں بھی 250روپے کا کہہ رہے تھے۔ انہیں ڈالر کی اصل قیمت کا انہیں علم نہیں تھا پاکستان تحریک انصاف کی خواتین کے بارے میں جو انہوں نے بات کی وہ اتنے بڑے لیڈر کے شان شیان نہیں تھی انہیں یہ بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ اس سے ان کی پارٹی کے ممبران نے تو ہو سکتا ہے مزہ لیا ہو لیکن جو غیر جانبدار حلقے ہیں انہوں نے اس بات کو کوئی اچھا نہیں جانا۔اب نواز شریف جب آئے ہیں تو لوگوں کو پتہ چل گیا ہے کہ اب سب بڑی طاقتیں ان کے ساتھ ہیں۔ انہیں ان تمام حلقوں کی آشیر باد حاصل ہے جو اقتدار قائم اور ختم کرتے ہیں اس وقت کاکڑ کی شکل میں ان کو ایک ایسا نگران وزیراعظم میسر ہے جو کہ ان کی پارٹی کا دفاع ان کی پارٹی کے افراد سے اچھا کر سکتا ہیانہوں نے جس طریقے سے پاکستان مسلم لیگ نواز کا دفاع کیا ہے اس طریقے سے پاکستان مسلم لیگ نواز کا کوئی ممبر نہیں کر سکتا اور جس طریقے سے انہوں نے عمران خان کی مخالفت کی ہے وہ بھی انہی کا خاصہ ہے۔اب اس خوش فہمی میں رہنا کے انتخابات غیر جانبدارانہ ہوں گے احمقوں کی جنت میں رہنے والی بات ہے۔ عام سے بندے کو بھی پتہ ہے کہ نگران حکومت کاجھکائو کس جانب ہے باقی طاقتور حلقوں کے بارے میں تو سب کو پتہ ہی ہے۔ نواز شریف کا لاہور کا جلسہ ایک لحاظ سے بہت کامیاب تھا کہ باہر سے بہت زیادہ لوگوںکو لایا گیا لیکن لاہور میں جلسے کی وہ گہما گہمی نہیں تھی جو کہ 1986ء میں جب بے نظیر آئی یا 2011ء کا جو عمران خان کے جلسہ میں تھی۔ اب نواز شریف کو جن مسائل کا سامنا کرنا ہوگا وہ کافی بڑے ہیں۔ان کے لیے نہ تو مقدمات مسئلہ ہیں اور نہ ان کی سزا مسئلہ ہے مقدمات بھی ختم ہو جائیں گے اور سزا بھی۔اب نواز شریف کے لیے سب سے بڑا چیلنج آنے والے الیکشن ہوں گے کہ وہ کس طریقے سے پاکستان مسلم لیگ نواز کو پاکستان تحریک انصاف کے مقابلے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مگر عوام میں اس کی مقبولیت ابھی کم نہیں ہوئی۔ پہلا بڑا مسئلہ نواز شریف کے لیے الیکشن جیتنا ہوگا کیونکہ جس طرح کہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ الیکشن کس طریقے سے اور کون جیتا ہے الیکشن کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بن جائیں گے تو پھر اصل امتحان نواز شریف کا اس وقت شروع ہوگا کہ وہ کس طریقے سے پاکستان کے مسائل کو حل کرتے ہیں۔ وہ جب چار روپے کی روٹی کی بات کرتے ہیں تو ان کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ 1984میں روٹی کی قیمت 50پیسے تھی پھر روٹی کی قیمت 50پیسے سے بڑھ کے اب 20روپے تک پہنچ گئی۔ 38 سال میں روٹی کی قیمت میں 40گنا اضافہ ہو چکا ہوا اور اسی طرح جس گھر کا بل 50روپے آتا تھا اب پانچ ہزار روپے آتا ہے۔ ۔ نواز شریف نے کوئی دو تین منٹ میں اپنے لائحہ عمل کا ذکر کیا ہے کہ وہ زراعت اور آئی ٹی کے میدان میں اصلاحات کریں گے اب دیکھنے کی بات ہے کہ وہ کس حد تک ان دو شعبوں کو فوکس کرتے ہیں نواز شریف کی تقریر کا زیادہ زور موٹروے پہ رہا انہوں نے ایک ایک موٹروے کا ذکر کیا اور اسی طرح پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ مختصر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی لیڈر کی کامیاب تقریر تھی ہمیں اس تقریر میں کوئی بڑا انقلابی نقطہ نظر نہیں آیا۔ ہاں البتہ کچھ لوگوں کی نظر میں نواز شریف کا امیج خراب ہوا ہے جن کا خیال تھا کہ پاکستان کے سسٹم میں صرف نواز شریف کی ذات ہی ہے جو کہ طاقتور حلقوں کے آگے کھڑی ہو سکتی ہے لیکن نواز شریف کی آمد اور ان کی تقریر کے بعد یہ اثر بھی زائل ہو گیا ہے۔