ستائس اکتوبر کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کا المناک حوالہ ہے۔کیا المیہ ہے کہ کشمیر اور فلسطین ناجائز قبضے سے آزاد ہونے کی جدو جہد میں لہو لہو ہیں۔اعلان آزادی کے معاہدے کے تحت مسلم اکثریتی ریاستوں کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا تھا۔جموں و کشمیر کی اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل اور پاکستان میں شمولیت کی آرزو مند تھی۔ 19 جولائی 1947 کو کشمیریوں کے حقیقی نمائندوں نے سرینگر کے علاقے آبی گزر میں سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس کے دوران متفقہ طور پر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کی۔یہ قرارداد اس امر کی علامت تھی کہ صدیوں سے پاکستان میں شامل علاقے اور کشمیر ایک دوسرے سے مربوط رہے ہیں۔دونوں کے ثقافتی ، مذہبی اور معاشی رشتے ان کے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رکھنے کو جواز فراہم کرتے تھے۔اس تاریخی قرارداد میں ریاست جموں و کشمیر کی پاکستان سے مذہبی، جغرافیائی، ثقافتی اور اقتصادی قربت اور لاکھوں کشمیری مسلمانوں کی امنگوں کے پیش نظر پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کیا گیا۔ کشمیر کے ہندو حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے عوامی مطالبات کو نظر انداز کیا اور کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق میں بلا جواز تاخیر کی۔اس تاخیر سے کشمیری عوام میں بے چینی و خدشات سر اٹھانے لگے۔بعض سرگرمیوں اور راطبوں کو دیکھتے ہوئے کشمیریوں کو خدشہ تھا کہ مہاراجہ پاکستان کے بجائے ہندوستان سے الحاق کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ خدشات بعد میں درست ثابت ہوئے۔ الحاق کی ناانصافی کو قبل از وقت محسوس کرتے ہوئے پشتون قبائلی اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے 22 اکتوبر 1947 کو کشمیر میں داخل ہوئے۔ وہ بڑے علاقے کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے جسے اب آزاد کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔اگر قبائلی مجاہدین ہمت نہ کرتے تو مقبوضہ کشمیر پھیل کر پنڈی کی حدود کو چھونے لگتا۔ بھارت نے الحاق کے نام نہاد معاہدے سے قبل ہی اپنی افواج سری نگر میں اتار دیں۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی قبضہ غیر قانونی اور جابرانہ چال تھی۔کشمیری عوام کو نظر انداز کیا گیا۔ان کی رائے کو فراموش کر کے مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ ایسا معاہدہ کیا جسے کشمیری آبادی کی اکثریت نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔یہ معاہدہ اس قدر بے وقعت تھا کہ پانچ اگست دوہزار انیس کو مودی حکومت نے کشمیر کی آئینی حیثیت یکطرفہ طور پر ختم کرکے الحاق کی غیر قانونی دستاویز کا خود ہی بھرم کھول دیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ نام نہاد الحاق کے معاہدے کی بنیاد پر 27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے ایک مکمل طور پر اشتعال انگیز حرکت کرتے ہوئے اپنی فوج سری نگر میں اتاری۔ اس دن کو کشمیر میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ یہ دن بھارتی قابض افواج کے جبر کے ایک طویل اور تاریک دور کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔اس تاریخ سے لے کر آج تک کشمیر میں امن نہیں ہو سکا۔اسی ہزار سے زائد کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔مال، جائیداد اور حرمت کو جو زخم برداشت کرنا پڑے ان کا حساب الگ ہے۔ بھارتی فوج کی غیر قانونی مداخلت اور پیش قدمی کو روکنے کے لیے پاک فوج آزاد جموں و کشمیر میں اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے پہنچی ،بھارت نے اسے مداخلت کہہ کر جنگ کا آغاز کر دیا۔کشمیر کے تنازع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی چار جنگوں میں سے یہ پہلی لڑائی تھی۔ دسمبر 1947 میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے تنازع کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ) سے رابطہ کیا۔بھارتی وزیر اعظم نے سلامتی کونسل کے روبرو وعدہ کیا کہ پاکستان اگر جنگ بند کر دے تو وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے پر تیار ہوں گے۔اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے 1948 میں قراردادیں منظور کیں، جن میں جنگ بندی کا کہا گیا۔یہ بھی کہا گیا کہ اس کی نگرانی میں رائے شماری ہو گی، تاکہ جموں و کشمیر کے عوام اپنے ووٹ کے ذریعے فیصلہ کر سکیں کہ آیا وہ ریاست کو پاکستان میں شامل کرنا چاہتے ہیں یا بھارت میں۔ پاکستان نے عالمی برادری کی ضمانت پر جنگ بند کر دی لیکن بھارت نے آج تک رائے شماری نہیں کرائی اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظر انداز کیا۔ بھارت نے کشمیریوں کو ان کے حق خود ارادیت سے محروم کرنے کے لیے جبر، ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی، اور کشمیر کی آبادی کو تبدیل کرنے کے وحشیانہ حربے اپنائے ہیں۔ بھارتی مظالم نے کشمیری نوجوانوں کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا۔ ظلم اور ناانصافیوں سے تنگ آکر 1989 میں کشمیر کو غیر قانونی بھارتی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے مقامی نوجوانوں نے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا۔یہ جدو جہد وقفے وقفے سے اپنا وجود منواتی آ رہی ہے۔ پانچ اگست 2019 کو بھارت نے یکطرفہ طور پر بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کر دیا جس نے کشمیر کو اس کی خصوصی حیثیت دی تھی۔ بھارت کی جانب سے ان آرٹیکلز کو منسوخ کیے ہوئے تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ۔حالات بہتر ہونے کی بجائے خراب تر ہوئے ہیں۔ کشمیری عوام میں یہ احساس دو چند ہوا ہے کہ عالمی برادری ان کے لئے کچھ نہیںکر رہی۔اس احساس کے تحت وہ آزادی کے حصول کے لیے پہلے سے زیادہ بے تاب ہیں۔ کشمیریوں کو دبانے کے لیے بھارتی مظالم کو مزید تیز کر دیا گیا ہے ۔بھارت نے اسرائیل کی پیروی میں کشمیریوں کی زندگی کو ایک جیل کی اذیت ناک شکل بنا دیا ہے۔ کشمیر میں تقریباً 7 لاکھ بھارتی فوج موجود ہے، یہ دنیا کا سب سے زیادہ عسکری موجودگی والا علاقہ بن چکا ہے، یہاں انسانیت کے خلاف جرائم ہوتے ہیں ۔ 27 اکتوبر 1947 کو شروع ہونے والا ڈراؤنا خواب کشمیری عوام کے لیے ابھی ختم نہیں ہو رہا ہے۔ قابض افواج کے زیر تسلط کشمیریوں کاہر دن نئے مصائب کے ساتھ آغاز ہوتا ہے ۔ایک اندھیرا ہے جو ختم نہیں ہو رہا ،ایک زخم ہے جسے آرام نہیں آرہا۔