وی سی آر کی اس ملک میں آمد اور گھر گھر اس کے پھیلائو سے پہلے ہر بڑے اور چھوٹے شہر میں سینما بینی کا ایک کلچر موجود تھا۔ سینمائوں نے دراصل ان تھیٹروں کی جگہ لی تھی جہاں کبھی سٹیج ڈرامے اور پُتلی تماشے ہوا کرتے تھے۔ سینما بینی کا یہ دور تقریباً پچھہتر سال تک چھایا رہا۔ برطانوی ہندوستان کے بمبئی شہر میں اپریل 1911ء کو ایسے ہی ایک تھیٹر میں ایک عیسائی مشنری پراپیگنڈہ فلم "The Life of Christ" دکھائی گئی۔ فلم بینوں میں ایک شخص دادا صاحب پھالکے بھی موجود تھا۔ وہ فروری 1912ء میں لندن چلا گیا اور دو ہفتے کی فلمسازی کی ٹریننگ لے کر واپس ہندوستان آیا تو اس نے آتے ہی ایک فلمساز کمپنی ’’پھالکے فلمز‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس نے انگلینڈ، فرانس، جرمنی اور امریکہ سے فلمسازی کا سازوسامان برآمد کیا اور فوراً ہی چند منٹ پر مشتمل ایک فلم ’انکوراچی وڈ‘‘ بنا کر سرمایہ کاروں کو دکھائی تاکہ وہ فلم سازی میں سرمایہ کاری کر سکیں، ساتھ ہی اس نے اخبارات میں اداکاروں اور اداکارائوں کے لئے اشتہار بھی دے دیئے۔ لیکن پورے ہندوستان میں اسے کوئی ایک عورت بھی اداکاری کے لئے میسر نہ ہو سکی۔ بالآخر مردوں نے عورتوں کے بہروپ دھارے اور چھ ماہ ستائیس دن کے عرصے میں چالیس منٹ دورانئے کی ایک خاموش فلم ’’راجہ ہری چند‘‘ مکمل ہوئی، اور 21 اپریل 1913ء کو اولمپیا تھیٹر بمبئی میں اس کا پریمیئر شو ہوا، جس کے بعد 3 مئی 1913ء کو اسے ورائٹی ہال میں عام نمائش کے لئے پیش کر دیا گیا۔ اس ’’سانحے‘‘ کے بعد تو اس فلمی صنعت کو جیسے پَر لگ گئے۔ بمبئی سے اس کا مرکز مدراس چلا گیا اور 1931ء تک وہیں رہا۔ لیکن پہلی بولتی اور گاتی فلم ’’عالم آرا‘‘ جب 14 مارچ 1931ء کو بمبئی کے میجسٹک (Majestic) سینماء میں دکھائی گئی تو اس وقت تک برصغیر کے طول و عرض میں سینماء گھروں کا ایک جال بچھ چکا تھا۔ ہر علاقے کے سرمایہ کار فلم سازی میں اپنا سرمایہ لگا رہے تھے اور خوب کما رہے تھے۔ خاموش فلموں کے زمانے میں ہی 1929ء میں لاہور کے عبدالرشید کاردار نے ’’حسن کا ڈاکو‘‘ نام سے فلم بنائی اور اس کے لئے انہوں نے ایک امریکی اداکارہ آئرس کرافورڈ (Iris Crawford) کو بھی کاسٹ میں شامل کیا۔ ان دنوں بھاٹی گیٹ لاہور میں ایک سینماء ’’دیپک‘‘ کے نام پر تھا جہاں یہ فلم 12 جولائی 1930ء کو دکھائی گئی۔ سینماء گھر ہر شہر میں موجود تھے اور ان پر نہ صرف بمبئی بلکہ ہالی ووڈ سے بھی فلمیں لا کر نمائش کے لئے پیش کی جاتی تھیں۔ ہر شہر میں فلم بینی کا ایک کلچر تھا۔ لاتعداد ایسے نوجوان تھے جنہیں فلموں کے تمام ڈائیلاگ ازبر یاد ہوا کرتے اور وہ انہیں فرفر سناتے پھرتے۔ جو پہلے فلم دیکھ کر آ جاتا وہ اس کی کہانی سنانے کے ساتھ ساتھ اداکاری اور موسیقی پر بھی سیر حاصل تبصرہ کرتا۔ فلموں کی تشہیر کے لئے تین ذرائع استعمال ہوا کرتے تھے۔ ایک تو اخبارات میں کاسٹ کی تصویروں کے ساتھ اشتہار شائع کروائے جاتے، دوسرا شہر کے چوکوں، چوراہوں، نمایاں مقامات اور بجلی کے کھمبوں پر پوسٹر لگائے جاتے، جبکہ تیسرا تشہیری ذریعہ تانگہ ہوتا، جس کے چاروں طرف فلم کے پوسٹر لگا دیئے جاتے، اندر ایک ڈھول یا نفیری والا بیٹھا ہوتا جو مسلسل اپنا ساز بجائے جاتا۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے تانگے میں بیٹھا ایک شخص ایک ’’بھونپو‘‘ (آواز بلند کرنے والا) سے فلم کے بارے میں اعلان کرتا جاتا۔ نئی فلم ہر جمعہ کے روز بعد از نماز جمعہ تین بجے کے شو میں ریلیز ہوتی۔ ان تمام تشہیری سرگرمیوں میں اچانک جوش اس وقت پیدا ہوتا جب کسی غیر ملکی فلم کے پوسٹر پر ’’صرف بالغوں کے لئے‘‘ لکھا گیا ہوتا۔ یہ روایت بھی ہم نے مغرب سے ہی لی تھی کہ وہاں فلموں کی درجہ بندی میں آج بھی ایسی فلموں کو "for Adults only" کہا جاتا ہے۔ مغرب میں فحاشی اور عریانی کی یہ انڈسٹری اتنی قدیم ہے جتنی فلم انڈسٹری۔ پہلی فحش فلم "A Grass Sandwich" 1915ء میں ہالی ووڈ میں بنائی گئی تھی، لیکن اس کے پہلے کے دس سالوں میں فرانس اور یورپ کے قحبہ خانوں میں 1905ء سے ہی طوائفیں اپنے مخصوص علاقوں میں گاہکوں کو راغب کرنے کے لئے چھوٹی چھوٹی خفیہ طور پر بنائی گئی فلمیں دکھایا کرتی تھیں۔ آج ایک سو سال گزرنے کے بعد فحش فلموں کا یہ کاروبار ایک بہت بڑی انڈسٹری کا درجہ حاصل کر چکا ہے جس کا سائز ایک اندازے کے مطابق ایک سو ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ آج سے ٹھیک 38 سال قبل 1984ء میں ایسی تمام فلمیں جو ’’صرف بالغوں کے لئے‘‘ کی درجہ بندی (Category) میں آتی تھیں، ان کے لئے سالانہ ایوارڈ کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا جس کا سپانسر ایک مشہور رسالہ "Adult Video New" (AVN) ہے۔ اسی وجہ سے ان ایوارڈز کا نام ہی "AVN" ایوارڈ ہیں۔ یہ ایوارڈ ہر سال تقریباً سو کے قریب اقسام (Categories) کے ’’ہنر مندوں‘‘ کو دیئے جاتے ہیں۔ فحش فلموں کی جہاں لاتعداد اقسام اور درجہ بندیاں ہیں وہاں دو درجہ بندیاں یوں تو ایوارڈ کے زمرے میں نہیں آتیں، لیکن دنیا بھر میں انتہائی شوق سے دیکھی ضرور جاتی ہیں۔ یہ دونوں اقسام ہیں ’چھپے ہوئے کیمرے سے بنائی گئی ویڈیوز‘‘ "Hiddencam Videos" یا پھر ’’جاسوس کیمرے کی ویڈیوز‘‘ "Spycam Videos"۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان دونوں اقسام میں زیادہ تر ویڈیوز مغرب میں نہیں بلکہ مشرقی ممالک میں بنائی جاتی ہیں اور پاک و ہند دونوں ملک اس فن میں درجۂ کمال رکھتے ہیں۔ یہ ویڈیوز کس لئے بنائی جاتی ہیں اور کون بناتا ہے؟۔ عموماً ان ویڈیوز کا مقصد کسی کو بلیک میل کرنا ہوتا ہے۔ کسی کو بدنام کرنا یا اس کی شہرت دائو پر لگانا ہوتا ہے۔ یہ فلمیں ہوٹل کے کمروں، ملاقاتوں کے محفوظ مقامات، نیٹ کیفوں اور بعض اوقات کسی کے ذاتی بیڈ روم تک رسائی حاصل کر کے بنائی جاتی ہیں۔ جس عورت یا مرد کی یہ ویڈیو بنائی جاتی ہے، اوّل تو اس سے سرمائے کی وصولی کی جاتی ہے یا پھر اسے کسی خاص کام کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ کام معاشی، معاشرتی اور سیاسی ہر قسم کا ہو سکتا ہے۔ اگر کسی شخص کے بیڈ روم یا ذاتی مقامات تک رسائی ممکن نہ ہو تو پھر اس کے ٹیلیفون ریکارڈ کئے جاتے ہیں۔ ان ٹیلیفون کالز کی بھی فحش ویب سائٹس میں ایک درجہ بندی موجود ہے جسے "Prank Calls" کہا جاتا ہے اور اس کے تحت لاکھوں ریکارڈ کی گئی کالز موجود ہیں۔ یہ تمام ویڈیوز ویب سائٹس تک محدود ہیں اور جو وہاں جانا چاہے، وہ جا کر دیکھ لے۔ لیکن پاکستان شاید وہ واحد بدقسمت ملک ہے جس میں اس دھندے اور غلیظ و کریہہ کام کو عوامی پذیرائی اور عوامی ذلت و رُسوائی کے لئے بھر پور طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ہر ’’مہذب‘‘ ‘‘باکمال‘‘ اور صاحب ریش و عمامہ شخص بھی اس طرح کی ویڈیوز اور آڈیوز پر سیر حاصل گفتگو کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز اور ویڈیو چینلز کی دنیا ان پر گفتگو سے آباد اور رنگین ہے۔ یہ وہ واحد صنعت ہے جس کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کا کسی کو کچھ علم نہیں مگر یہ صنعت دن دُگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ کاش کوئی اس صنعت پر "AVN" ایوارڈز کی طرح ایوارڈز کا آغاز کرے اور خفیہ کیمروں اور آڈیوز ریکارڈنگ کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے لئے بھی بہت بڑے ایوارڈز کا اعلان کرے۔ پھر دیکھئے کون کون ان ایوارڈوں کو حاصل کرنے کیلئے میدان میں نکلتا ہے۔ ہو سکتا ہے لائف ٹائم ایچیومنٹ "Life time Achievement" ایوارڈ بھی کسی شخصیت کو ملے یا شاید کوئی کمپنی اس کی حقدار ٹھہرے۔