2024 ء کے انتخابات کا شیڈول جاری ہو چکا ہے ۔کاغذات نامزدگی ان کی جانچ پڑتال اور واپسی کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی انتخابات کے لئے سیاسی اور انتظامی بساط بچھائی جاچکی ہے۔سیاسی جماعتیں اپنی اپنی صفیں درست کررہی ہیں اور نئے اتحادیوں کی تلاش بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔مستقبل کی سیاست کا رخ دیکھ کر الیکٹبلز بھی جماعتوں میں شمولیت کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود سیاسی فضا میں غیر یقینی کی کیفیت اب بھی موجود ہے ۔ کچھ روز پہلے جناب آصف زرداری اپنے ایک انٹرویو میں انتخابات کے آگے یا پیچھے ہونے کا ذکر کر چکے ہیں۔ بائیس دسمبر کے اخبارات کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے امریکہ کے دورے میں پاکستانی کمیونٹی کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے اسی طرح کی بات کہی کہ لاجسٹکس کی وجہ سے انتخابات کچھ دن آگے پیچھے ہو سکتے ہیں لیکن یہ رکیں گے نہیں اور ہر صورت میںمارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخاب سے پہلے ہونگے۔انتخابات کے انعقاد کی تفصیلات آنے کے بعد اس نوعیت کے بیانات سے شبہات کا پیدا ہونا ایک امر واقعہ ہے ۔عدالتی احکامات کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ اس طرح کے مبہم بیانات سے گریز کیا جائے ۔پاکستان کی موجودہ سیاسی ،معاشی اور انتظامی حالات اب اس بات کے متقاضی ہیں کہ ایک منتخب اور مستحکم حکومت کے قیام کو ممکن بنایا جائے ۔ماضی کے بجائے مستقبل کی طرف توجہ مرکوز کی جائے اور سیاسی سطح پر موجود انتشار کو ہر صورت ختم کیا جائے۔اس سلسلے میں پہلے قدم کے طور پر ضروری ہے کہ انتخابی عمل شفاف اور منصفانہ ہو ۔انتخابات کے شفاف ہونے کی صورت میں ہی اس کے نتائج کو قبولیت عامہ حاصل ہو گی اور ملک میں سیاسی بے چینی کو ختم کیا جاسکے گا، سیاسی استحکام ممکن ہوگا اور معیشت کی بہتری کے لئے فضا سازگار ہو گی ، ریاست آج جس گرداب میں گھر چکی ہے اس سے نکلنے کا واحد اور واضح راستہ انتخابات میں شفافیت سے ہی نکلتا ہے۔موجودہ نگراں حکومت اگرچہ اس بات کا اظہار تو کر رہی ہے کہ انتخا بات میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع حاصل ہیں مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔صاف نظر آرہا ہے کہ پاکستان تحر یک انصاف کے لئے انتخابات میں حصہ لینے کی راہ میں مشکلات ہی مشکلات ہیں۔سیاسی اورانتظامی سطح پر ایسے اقدامات کئے جارہے ہیں جس سے اس سیاسی جماعت کے لئے انتخابات میں شرکت آسان نہ رہے۔اس کی قیادت یا تو پابند سلاسل ہے یا پھر روپوش ہے ۔سیاسی اجتماع کرنے میں بھی رکاوٹیں موجود ہیں اور اس طرح کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں کاغذات نامزدگی حاصل کرنے والے اس کے امیدواروں کو زدو کوب کیا گیا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے قواعد و ضوابط کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے کی پاداش میں پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بھی واپس لے لیا ہے۔ایک ایسی سیاسی جماعت جس کی عوامی مقبولیت دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ ہو اس کی انتخابات میں شرکت کو ہر طرح سے مشکل بنایا جارہا ہو ، نہ صرف انتخابی عمل میں شفافیت کے منافی ہے بلکہ ایسے انتخابات کے نتائج کو عوام کی اکثریت بھی کبھی قبول نہیں کرے گی ۔ سیاسی استحکام جس کی اس وقت پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ مزید عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایات پر مبنی درخواست پر سپریم کورٹ کے جج جناب اطہر من اللہ نے ان شکایات کو درست قرار دیتے ہوئے ریمارکس دئے کہ بظاہر تحریک انصاف کا انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت درست ہے۔ایک سیاسی جماعت کو کیوں دیوار سے لگایا جارہا ہے۔سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیئے۔ سپریم کورٹ نے اس صورتحال کے پیش نظر الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کویکساں موقع نہ ملنے کی شکایات کا ازالہ کرے ۔ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی سیاسی استحکام کی خاطر ایسے اقدامات کی مذمت اور حوصلہ شکنی کرنی چاہیئے جن سے کسی سیاسی جماعت کی انتخابات میں شرکت کو مشکل بنایا جارہا ہو۔جمہوری سیاسی عمل کو جاری رکھنے اور اسے استحکام دینے میں سب زیادہ ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی بنتی ہے ۔ جب تک سیاسی جماعتیں اس ذمہ داری کو محسوس نہیں کرینگی سیاسی عمل عدم استحکام کا ہی شکار رہے گا ۔ سیاسی ادارے کمزور رہینگے اور سیاسی عمل میں سیاست دانوں کا کردار محدود اور مشروط رہے گا ۔بد قسمتی سے پاکستان کے سیاست دان جمہوری سیاست کے نام پر اکثر و بیشتر غیر جمہوری روش اختیار کرتے رہے ہیں۔انتخابات ان کے جمہوری رویوں کی پہلی آزمائش گاہ ہے مگر یہ عام مشاہدہ ہے کہ اس موقع پر وہ ہر سطح پر غیر جمہوری رویے اختیار کرنے سے باز نہیں رہتے۔ اگر انتخابات کا عمل ایک بار شفاف اور جمہوری اقدار کے مطابق شروع کرلیا جائے تو پورا سیاسی نظام مضبوط بنیاد پراستوار ہو سکتا ہے۔نگراں حکومت ، الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کی یہی تو ذمہ داری ہے کہ وہ ہر صورت انتخابات کے عمل کو شفاف اور غیر جانبداری کے ساتھ ممکن بنائیں محض زبانی دعوے کافی نہیں شفافیت اور غیر جانبداری نظر بھی آنی چاہیئے۔موجودہ انتخابی ماحول میں یہ کیفیت واضح طور پر مفقود ہے۔ الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کا رویہ واضح طور پر تحریک انصاف کے ساتھ منصفانہ نہیں ہے۔ذرائع ابلاغ روزانہ کی بنیاد پر اس صورتحال کو رپورٹ کر رہے ہیں اس کا ازالہ کیا جانا چاہیئے۔اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے اس کی پسند و ناپسند کی بنیاد پر حکومتوں کے قیام اور اختتام کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیئے۔ ماضی میں اس طرز عمل کے نتائج کبھی بھی ریاست اور اس کے عوام کے لئے سود مند نہیں رہے اور نہ آئندہ رہینگے ۔پاکستان آج معاشی اور سیاسی لحاظ سے خطے کے تمام ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے ۔سیاسی عدم استحکام، معاشی تنزلی اور اداروں کے درمیان آویزش نے ریاست کی بنیادوں کو کمزور کردیا ہے۔ ریاست کے مستقبل سے متعلق عوام میں بالخصوص نوجوانوں میں یاسیت اور غیر یقینی بڑھتی جارہی ہے اور ان میں ملک چھوڑنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق گزشتہ سال ملک چھوڑنے والوں کی تعداد نو لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ ملک کے شہر یوں کا اتنی بڑی تعداد میں ملک سے باہر جانا ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ ریاست کے فیصلہ سازوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔پاکستان کا مستقبل معاشی استحکام سے جڑا ہوا ہے اور اس کے لئے سیاسی استحکام ضر وری ہے اور سیاسی استحکام ایک ایسی حکومت کے قیام پر منحصر ہے ،جسے عوام کا بھرپور اعتما د حاصل ہو اور اس کے لئے انتخابات کا ہر اعتبار سے شفاف ہونا ضروری ہے ۔ بس اتنی سی بات ہے جسے اداروں کو سمجھنا ہے !!!