سپرنگ از ان دا ائیر والی کیفیت کے مصداق ماہ فروری کے آخری دن مارچ میں آنے والے عالمی یوم خواتین بازگشت سے بھرے ہوتے ہیں اور عورت کے وجود کی اہمیت اور زندگی میں اس کی شراکت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ایک سیلیبریشن کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اسے حسن اتفاق کہیے کہ اس فضا میں مریم نواز شریف نے پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلی کا حلف اٹھایا ہے۔ وزیراعلی کی حیثیت سے انہوں نے نپی تلی اور متوازن تقریر کی۔ اپنی گزشتہ تقریروں کے برعکس انہوں نے اپنے لہجے کو نرم رکھا یہ چیز اچھی لگی ۔کسی عہدے پر جا کر جیت اور فتح کے بعد عاجزی کشادہ دلی اور اعلی ظرفی ہی انسان کی شان ہے۔ کاش کشادہ دلی اور نرم روی کا یہ انداز اگلے پانچ سال عملی طور پر جاری رہے۔اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر پہلی تقریر کرنے والے ہمیشہ اچھی ہی باتیں کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان کی پہلی تقریر نے مخالفیں کے دل بھی موہ لیے تھے ِ ایسا لگتا تھا کہ اب وہ ایک مدبر سیاستدان اور وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی پالیسیز طے کریں گے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ٓور کل جب مریم نواز کی تقریر سنی بہت سی باتیں بہت اچھی لگیں َ۔ مریم نواز نے اپنی پہلی تقریر میں جو باتیں کیں ان میں ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ انتقام اور نفرت کی سیاست ہر یقین نہیں رکھتیں کاش کہ اگلے پانچ برس تک وہ ان الفاظ کی لاج رکھیں۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نو مئی کے سانحے میں ملوث افراد کو فوری طور پر جیلوں سے رہا کر دیا جائے جن لوگوں نے ملکی املاک کو جلایا ان کو اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔تاکہ آئندہ کے لیے ایک مثال قائم ہو سکے۔دوسری اہم بات جو کہ ہر حکمران کرتا ہے کہ ہم غریبوں کی زندگیوں کو بدلیں گے وہ مریم نواز نے بھی کی۔ بی آئی ایس پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے مریم نواز نے اپنی تقریر میں بجا طور پر درست کہا کہ غربت کے حوالے سے ہمارے پاس تازہ اعداد و شمار نہیں ہے ہمارے پاس مکمل ڈیٹا نہیں ہے اور اس پر انہوں نے کام شروع کروا دیا ہے کہ تازہ اعداد وشمار اکھٹے کیے جائیں۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران جتنی غلط معاشی پالیسیوں اور سیاسی عدم استحکام کے باعث ظالمانہ مہنگا ئی نے عام آدمی کی معیشت کو درہم برہم کر دیا عام آدمی کی قوت خرید بہت کم ہوئی اور عزت کی دال روٹی کھانے والے لاکھوں گھرانے بدترین غربت کی طرف لڑھک گئے۔اس طرح غربت کے نیٹ ورک میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔اگر مریم نواز شریف اپنی کہی ہوئی بات کے مطابق واقعی غربت کا تازہ ترین اعداد و شمار اکٹھا کرنے پر ٹھوس کام کرتی ہیں تو یہ بہت اہم کام ہو گا اور کوئی بھی پالیسی بناتے وقت یہ اعداد شمار سمت کا صحیح تعین کر سکیں گے۔اس حوالے سے پاکستان کے دوسرے تمام صوبوں کو بھی تازہ اعداد و شمار اکٹھے کرنے چاہئیں۔ صوبے کی نئی منتخب وزیراعلی نے اپنی تقریر میں پاکستانی یوتھ کو فوکس اور کہا کہ یہ میرے دل سے قریب ہیں اور میں ان کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں۔آئی ٹی سٹی ،لیپ ٹاپس ،سکالرشپس ، بیرون ملک اعلی تعلیم کے مواقع، آسان قرضوں کا ذکر کیا۔میں یہاں کہنا چاہوں گی کہ غربت کو جس طرح مختلف کیٹگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے اسی طرح یوتھ کی بھی کیٹگریز بنائی جائیں۔تین بڑی کیٹگریز تو یہ ہیں کہ ڈگری ہولڈر اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ، عام پڑھے لکھے نوجوان اور پھر انپڑھ پہلی دوسری تک پڑھے ہوئے انتہائی غریب گھروں سے تعلق رکھنے والے نوجوان۔ عموماً لفظ یوتھ کے ساتھ ہمارے سامنے یونیورسٹی سے ڈگری ہولڈر پڑھے لکھے نوجوانوں کا چہرہ سامنے آتا ہے۔ لیکن پاکستان میں بسنے والے 70 فیصد غریب گھرانوں کے غریب بچے جو 15 سے 18 سال کے عمروں کے ہیں، جو انتہائی غربت کے باعث اسکول نہ جاسکے اور جن کے پاس زندگی گزارنے کے لیے کوئی ہنر بھی نہیں ہے اور یہ بچے زرد پتوں کی طرح گلیوں میں آوارہ پھرتے ہیں، ان کے سامنے مستقبل سوائے دھند کے اور کچھ بھی نہیں ہے یہ بھی پاکستان کی یوتھ ہے۔ وزیر اعلی مریم نواز ان غریب بچوں کو بھی اون کریں اور وہ معاملات کو سطحی نظر کی بجائے ایک ماں کے حساس دل ونظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ منو بھائی کا سنایا ہوا ایک واقعہ یاد آتا ہے وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے کالم لکھنا اور حالات کا تجزیہ کرنا ایک ماں سے سیکھا۔ غریب غمزدہ ماں اپنے گم شدہ بچے کی خبر لگوانے اخبار کے دفتر میں آئی جب وہ رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔کہتے ہیں جب اس ماں سے پوچھا کہ بچے کے کپڑوں کا رنگ کیا تھا ماں نے جواب دیا کہ جب وہ گھر سے گیا تھا تواس نے سفید رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے لیکن ایک ہفتہ ہونے کو آیا ہے اب اس کے کپڑے میلے ہو گئے ہوں سفید کہاں رہے ہوں گے۔ کاش کی مریم نواز ایک خاتون ہونے کے ناطے معاملات کو درد مند ماں کے نظر سے دیکھیں۔موروثی سیاست کے حوالے سے مریم نواز شریف کے بارے آپ اختلافی نقطہ نظر رکھ سکتے ہیں لیکن اسے مخالفین بھی تسلیم کریں گے کہ وہ پنجاب جیسے ڈائنامک صوبے کے لیے ایک موزوں آپشن ہیں ،ورنہ پنجاب نے عثمان بزدار جیسا وزیراعلی بھی جھیلا ہے جو کسی بھی طور پہ سیٹ پر چجتا نہیں تھا اعتماد کا عالم یہ تھا کہ موصوف ایک عام سے سوال کا جواب دینے کے قابل بھی نہیں تھے۔ ساری بات کا خلاصہ مگر یہ ہے کہ جو خوبصورت دعوے کیے گئے ان کو عملی طور پر کر کے دکھائیں۔ لوگ غربت اور مہنگائی سے تنگ ہیں اور انتظار میں ہیں کہ ان کے دکھ کی دوا کی جائے۔غالب کا یہ استعاراتی مصرع بر محل ہے۔ ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے دکھ کی دوا کرے کوئی! وہ کام کریں گی تو ان کو سراہا جائے گا وگرنہ ہم قلم کو تیر بنانے کا ہنر بھی جانتے ہیں کہ شکوہ قلم کی حفاظت ہم پہ فرض ہے اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا ہمیں نہ حرص کرم ہے نہ خوف خمیازہ !