حج اسلام کا ایک ایسا بنیادی رکن ہے جو اخلاقی ، معاشرتی ، اقتصادی ، سیاسی ، قومی و ملی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے اور مسلمانوں کی عالمگیر اوربین الاقوامی حیثیت کا عکاس ہے۔حج میں تمام دنیا سے اسلام کے پیروکار جمع ہو کر اللہ کی وحدانیت، اس کی ذات وصفات اور اس کی ربوبیت میں کسی کے شریک نہ ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔یہ عظیم الشان سالانہ اجتماع مرکز اسلام مکہ المکرمہ کے میدان عرفات میں منعقد ہوتا ہے کہ جہاں سے حق و سچائی کا چشمہ ابلا اور اس نے دنیا کو سیراب کیا۔’ لبیک اللہم لبیک لبیک لاشریک لک لبیک کے نغمہ توحید مسلمان اللہ کی حاکمیت کااقرار کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اصل حکمرانی اللہ ہی کی ہے اور اللہ کی حکمرانی کے سوا انہیں کسی کی حکمرانی قبول نہیں اور کندھے سے کندھا ملا کر میدان عرفات کی طرف دوڑتے ہوئے یہ حجاج’’ بنیان مرصوس‘‘ کا عملی اظہار کررہے ہوتے ہیں ۔ افسوس کہ آج امت مسلمہ حج کے اصل مقاصد سے بے خبر ہے۔مسلمان حج کے اجتماع میں شریک تو ہوتے ہیں لیکن اکثر لوگ اس اجتماع کے اصل روح سے بے خبرہیں ۔ اس وقت عالم اسلام کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔بالا دست اور طاغوتی قوتوں نے پوری ملت اسلامیہ کے مالی وسائل پر مختلف حیلوں سے قبضہ کرنے اور مسلمانوں کا مال شیر مادر سمجھ کر ہضم کرنے کو شعار بنا رکھا ہے۔یہ وقت باہم سیاسی یا گروہی فوائد کے لئے معاملات کو بگاڑنے کا نہیں بلکہ درست کرنے کا ہے۔ عالم اسلام کے صاحبان بصیرت گروہوں ، جماعتوں اور افراد کو آگے آکر اپنا کردار ادا کر کے طاغوت کیخلاف سینہ سپر ہونا چاہیے۔ او آئی سی کے پلیٹ فورم کو عالم اسلام کی ایک مجلس شوریٰ کی حیثیت دے دینی چاہیے۔ عالم اسلام اسی پلیٹ فارم کو ایک’’ مشترکہ پارلیمینٹ‘‘ بناکر اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کا حل سوچے اور سلامتی سے متعلق امور پر لائحہ عمل مرتب کرے۔ مشترکہ منڈی، مشترکہ میڈیا پالیسی، مشترکہ کرنسی اور دوسرے اقدامات کے ذریعے عالم اسلام کی فلاح وبہبود پر توجہ دے۔ اس مقصد کے لئے ایک باضابطہ سیکرٹریٹ قائم کرکے مسلم ممالک میں رابطے کا ایک نیٹ ورک مضبوط نظام بنایا جا سکتا ہے لیکن اس عظیم اور بڑے کام کا آغاز مرکز اسلام مکہ مکرمہ سے حج کے عالمگیر اور عظیم اجتماع سے ہی کیا جا سکتا ہے۔اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہیں ۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ حالات میں امت مسلمہ کی شیرازہ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ مسلمان دنیا بھر کی آبادی کا پانچواں حصہ ہے ۔ مسلم ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں جنہیں موثر طور پر بروئے کار لانے اور درست طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک عالم اسلام کے حکمران پورے سیاسی عزم کے ساتھ عالم اسلام کو متحد و منظم کرنے پر کمر بستہ نہیں ہوں گے تب تک نتیجہ خیز اور موثر نتائج بر آمد نہیں ہوں گے ۔ مسلم ممالک کی حکومتوں کو بے حسی ختم کر کے یک منظم ادارے کی شکل میں اپنے مفادات کے تحفظ کے اقدامات کرنا ہوں گے ۔ مسلمان ممالک کے درمیان اور مسلمان ممالک کے اندر بھی علاقائی و نسلی اور گروہی بنیادوں پر اختلافات کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال نے ان کی صفوں میں اتحاد و یکجہتی کے رشتوں کو بری طرح متاثرکیا ہے اور پوری دنیائے اسلام زبردست جغرافیائی اہمیت رکھنے کے باوجود انتشار و افتراق کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ انفرادی طور پر چند اداروں اور جماعتوں کے سوا امت مسلمہ نے عالمگیر سطح دین اسلام کی صحیح اور کامل طریقے سے تبلیغ و اشاعت کی ذمہ داری پوری کرنے کا کوئی با ضابطہ اہتمام نہیں کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنھم کا کردار اور تعلیمات ہمارے لئے راہنما اصول کا درجہ رکھتی ہیں ۔ آج اگر ہم امت مسلمہ کو در پیش چیلنجز اور مسائل و مشکلات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو ہمیں یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس کی بنیادی اور اہم وجہ خود ہماری بے عملی اور بد عملی ہے جس نے ہمیں صراط مستقیم سے بھٹکا کر کامیابی اور کامرانی سے محروم کر دیا ہے۔ہماری اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو گی کہ آج مسلمانوں کی سر زمین مسلمانوںکے خون سے رنگین ہو رہی ہے اورمسلمان وحشیانہ مظالم کا شکار ہیں۔ دشمنان اسلام ہر طرح کے تشدد کے پیچھے مسلمانوں کے ہاتھ کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں اور وہ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے کر ان کے خلاف عالمی سطح پر نفرت و حقارت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔اگر پوری امت مسلمہ اپنے اقتصادی وسائل اور افرادی قوت کو امت واحدہ ہونے کی بنیاد پر یکجا کرلے تو نہ صرف اسلام کا ایک نیا دور عروج شروع ہو سکتا ہے بلکہ مسلمانوں کی محرومیوں اور مایوسیوں کا خاتمہ بھی ایک حقیقت بن کر ابھر سکتا ہے ۔ جس سے اسلامی تعلیمات کی برتری کا تصور تقویت پکڑے گا اور اسلام کے حلقہ اثر کو بھی فروغ حال ہو گا۔ دنیا میں ہمیشہ اہل حق ایک کشمکش سے دوچار رہے ہیں اور جب تک دنیا باقی ہے اہل اسلام کا یہ طبقہ اس کشمکش سے دوچار رہے گا وہ کسی بھی صورت میں حق اور باطل کو برابرتسلیم نہیں کرسکتے اور نہ ہی سیاہ اور سفید کو ایک مان سکتے ہیں ۔ آج جب دین کوہماری قربانی کی ضرورت ہے تو ہم بہرپہلو قربانیاں پیش کرنے کیلئے تیارہوتے۔ بدقسمتی سے ہماری نماز ،ہمارا روزہ ہمارا حج وقربانی بطور عادت ادا ہوتے رہتے ہیں، بطور عبادت نہیں۔ ہمارے ہاں رسم تو موجود رہا ہے لیکن عبادت کی روح کسی بھی جگہ نظر نہیں آتی ہے۔آج بھی وقت ہے کہ مسلمان سنبھل جائیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تاکہ تمام عالم اسلام مل کر دشمنان دین و ملت کا ڈت کر مقابلہ کر سکیں۔