پیکر شجاعت ، جبل استقامت، عاشقِ زارِ رسول اکرمﷺ امیرالمومنین ،سیدنا سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں، جنہیں رسول پر نورصلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ خداوندی سے مانگ کر لیا تھا۔ قدرت نے ازل ہی سے آپ کو بانی اسلام کی تائید و نصرت اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے چن رکھا تھا۔ آپ اعلان نبوت کے چھٹے سال 27برس کی عمر میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ علامہ شبلی نعمانیؒ آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت وکردار کے متعلق کیاخوب کہتے ہیں:’’تمام دنیا میں تاریخ ہمیں ایسا کوئی حکمراں نہیں دکھا سکتی جس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیص میں دس دس پیوند لگے ہوں۔ کاندھے پر مشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی بھر کر آتا ہو۔ فرش خاک پر پڑا رہتا ہو۔ بازاروں میں پھرتا ہو، جہاں جاتا ہو، اکیلا و تنہا چلا جاتا ہو۔ اونٹوں کے بدن پر اپنے ہاتھ سے تیل ملتا ہو، حشم وخدم کے نام سے آشنانہ ہو اورپھریہ رعب ودبدبہ ہو کہ عرب وعجم اس کے نام سے لرزتے ہوں۔ وہ جس طرف رخ کرتا ہو زمین دہل جاتی ہو۔ سکندر وتیمور تیس تیس ہزار فوج رکاب میں لے کر نکلتے تھے تو ان کا رعب قائم ہوتا تھا۔جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے کلمۂ شہادت پڑھا تومسلمانوں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا جس سے وادی مکہ گونج اٹھی۔ مسلمانوں نے خانہ کعبہ میں اعلانیہ اسلام کا اظہار کیا اورمشرکین مکہ یہ کہنے پرمجبور ہوئے کہ آج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا۔ معلوم انسانی تاریخ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے کوئی ایسی شخصیت نہیں ملتی جس نے باقاعدہ امور جہاں بانی سنبھالتے ہوئے سرکاری سطح پر اصول وضوابط کے تحت یہ محکمہ قائم فرمایا ہو۔ اس کے علاوہ بھی آپ نے معاشرے کی عمومی اصلاح اور بلدیاتی نظام کو قائم کرنے کیلئے بے شمار ایسے اقدامات کئے۔آپ نے اپنا دورخلافت سچے خادم کی حیثیت سے گزارا۔ کسی بھی صورت میں ہونے والے ظلم وزیادتی کا فوری سدباب، احساس ذمہ داری اور آخرت میں جواب دہی کا تصور ’’عہد فاروقی کے نظام عدل‘‘ کے یہ وہ بنیادی اصول ہیں جنہیں اپنا کر دنیا آج بھی عدل وانصاف اور امن وآشتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے امور خلافت چلانے کیلئے مہاجرین وانصار کی مجلس شوری قائم کی ، اس حیثیت سے آپ اسلام کے شورائی نظام کے بانی ہیں ۔ ملک کو ڈویژنوں میں تقسیم کرکے ان پر حاکم اعلی اور گورنر مقرر فرمائے ۔ کاتب ، کلکٹر ، انسپکٹر جنرل پولیس ، افسر خزانہ ، ملٹری اکاو نٹنٹ جنرل اور جج وغیرہ کے عہدے مقرر کئے ۔ باقاعدہ احتساب کا نظام قائم فرمایا ۔ زراعت کی ترقی کیلئے نہریں جاری کیں ، تالاب بنائے ، ڈیم بنوائے اور آب پاشی کا ایک مستقل محکمہ قائم فرمایا۔ بنجر زمینوں کے آباد کاروں کو مالکانہ حقوق دئیے، سرونٹ کوارٹر ، فوجی قلعے اور چھانیاں ، سرائے ، مہمان خانے اور چوکیاں قائم کرائیں ۔ کوفہ ، فسطاط ، حیرہ اور موصل سمیت کئی عظیم الشان شہروں کی بنیاد رکھی اور انہیں آباد کیا ۔ فوج اور پولیس کے نظام میں اصلاحات کیں اور انہیں منظم کیا ۔ بہترین نظام عدل وانصاف قائم کیا ، جو ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مساجد کے آئمہ ، موذنین ، فوجیوں اور ان کے اہل خانہ ، اساتذہ وغیرہ کی تنخواہیں مقرر فرمائیں ۔ اس کے علاوہ مردم شماری ، زمین کی پیمائش کا نظام ، جیل خانے ، صوبوں کا قیام ، لاوارث بچوں کے وظیفے کا اجرا، مکاتب قرآنی کا قیام ، نماز تراویح کا باقاعدہ آغاز وغیرہ آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کی یاد گاریں ہیں ۔ آپ سب سے پہلے مسلم حکمران ہیںکہ جس نے امیرالمومنین کا لقب اختیار کیا۔آپ سے پہلے دنیا بھر میں کہیں بھی بیت المال یا قومی خزانے کا کوئی تصور نہ تھا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تاریخ انسانیت کے وہ پہلے حکمران ہیں جنہوں نے ’’قومی خزانہ قوم کی ملکیت‘‘ کا تصور پیش کیا اورصرف تصور ہی پیش نہیں کیا بلکہ اس پر عمل بھی کرکے دکھایا۔ آ پ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت عدالتی نظام قائم فرمایا،آپ نے ایک مجلس مشاورت بلائی، بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کو دعوت دی اور باہمی مشاورت سے ہجری تقویم (کیلنڈر) کا نظام بھی مقرر فرمایا۔ آپ کے دور میںفوجی چھائونیوں کا قیام عمل میں لایا گیا، ، پرچہ نویس مقررکئے گئے، دور دراز علاقوں میں جہاں مستقل چھائونیوں کی ضرورت تھی وہاں مستقل چھائونیاں قائم کی گئیں ۔ کوفہ، بصرہ، فسطاط اور موصل وغیرہ اس کی روشن مثالیں ہیں جو آج تک موجود ہیں۔ پولیس کا محکمہ قائم کیا گیا۔ رضاکاروں کی تنخواہیں مقرر ہوئیں، دفتر مال قائم کیا گیا، گودا م بنوائے گئے۔ پیمائش کا طریقہ جاری کیا گیا، مردم شماری کرائی گئی، نہریں کھدوائی گئیں، نئے شہر آباد کئے گئے۔ راتوں کو گشت کرکے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا،پرچہ نویس مقرر ہوئے، یتیم بچوں کی پرورش ، مفلوک الحال غیرمسلموں ، معلموں،مدرسوں اور طلباء کے وظیفے مقرر کئے گئے، وقف کا طریقہ ایجاد کیا گیا، مساجد میں روشنی کاانتظام کیا گیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور ہی میں نہریں کاٹ کر شہریوں میں آب رسانی کا انتظام کیا گیا کہ اس طرح ملک کے ہر باشندے کو پیٹ بھرنے کیلئے غذا، پہننے کیلئے کپڑا اور رہنے کیلئے مکان نصیب ہوا۔ تعلیم مفت نصیب ہوئی، اساتذہ، طلبائ، اماموں، مؤذنوں، فوجیوں وغیرہ اور ان کی اولاد کو باقاعدہ وظیفہ ملتا اور ان کے حقوق کی مکمل پاسداری کی جاتی۔ 26ذی الحجہ 23ھ کو مجوسی غلام ابو لولو فیروز نے آپ پر قاتلانہ حملہ کیا اور یکم محرم 24ھ کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی مدت خلافت دس سال چھ ماہ اور چار دن ہے۔ اسلام کے گلشن کو جن شہدائے اسلام نے اپنا قیمتی خون دے کر سدا بہار کیا، ان میں امیرالمومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی سرفہرست ہے۔اسلامی اورہجری سال کاآغازمحرم الحرام سے شروع ہوتاہے۔ یکم محرم الحرام کوخلیفہ دوئم امیر المومنین سیدنافاروق اعظم کو ایک مجوسی ابو لؤ لؤفیروز نے آپ پر حملہ کرکے شدید زخمی کردیا ۔آپ جانبر نہ ہو سکے اورانہی زخموں سے آپ نے شہادت پائی ۔