انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ سیاسی صف بندیاں ہورہی ہیں ۔اتحاد کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ سیاستدانوں کی ملاقاتیں ،رنجشیں اور عداوتیں بھی سامنے آرہی ہیں ۔ان سب کے باوجود سیاسی منظر اب بھی واضح نہیں ہے۔کچھ عدالتی کاروائیوں نے سیاسی گہما گہمی کو ماند کر رکھا ہے اور کچھ سیاستدان ابھی تک اس مخمصے میں ہیں کہ انتخابات ہو نگے بھی یا نہیں ! اس ضمن میں تحریک انصاف اور عمران خان کے سیاسی مستقبل کا تعین انتہائی اہم ہے۔ نو مئی کے واقعات کی سنگینی اپنی جگہ بہت اہم سہی لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تحریک انصاف اور اس کے قائد کی مقبولیت اب بھی باقی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں عمران خان سے متعلق عدالتی فیصلوں کے انتظار میں ہیں۔ اس صورتحال کے واضح ہو نے پر ہی انتخابات کا منظر واضح ہو سکے گا۔ اور تب ہی سیاسی جماعتیں انتخابات کے لئے اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کرینگی۔ جمہوری سیاست میں انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتوں کو اپنی کامیابی کے لئے عوام کے سامنے اپنے منشور ،مقاصد اور حکمت عملی کو پیش کرنا ہوتا ہے ۔عوام کے مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ ریاست کے داخلی اور خارجی معاملات پر بھی اپنا لائحہ عمل دینا ہوتا ہے۔ اگر کسی سیاسی جماعت یا اتحا د کی گزشتہ دور میں حکومت رہی ہے تو اسے اپنی کارکردگی عوام کے سامنے رکھنا ہوتی ہے۔مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا یہاں انتخابات کے موقع پر سیاسی سرگرمیوں کا محور قومی مسائل اور موضوعات کے بجائے مخالف سیاست دانوں کی شخصی کمزوریوں کا تذکرہ زیادہ کیا جاتا ہے۔ الزام تراشی اور دشنام طرازی پر زیادہ زور رہتا ہے۔ موجودہ سیاسی ماحول بھی اسی آلودگی سے دوچار ہے۔ بلاول بھٹو زرداری شہباز شریف کی حکومت میں جب وزیر خارجہ جیسے اہم منصب پر فائز تھے تو وہ شہباز شریف کی کارکردگی کے اس قدر معترف تھے کہ انہیں پاکستان پیپلزپارٹی کا وزیر اعظم تک کہہ دیا مگر اب ان کے خیال میں اس حکومت نے سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں کیا۔ نواز شریف جو ، کمال مہربانی ء قسمت ، تین بار وزارت عظمی کا منصب سنبھال چکے ہیں مگر ہر بار اپنی مدت پوری کرنے میںناکام رہے ان کی سیاسی مہم ’’ مجھے کیوں نکالا ‘‘ اور ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ کے بعد اب ’’مجھے حکومت دو ‘‘ کے بیانیے تک آگئی ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سیاسی اور انتخابی رویے اسی افلاس کا شکار ہیں۔ پاکستان کی جمہوری سیاست میں کامیابی کے لئے بالعموم غیر جمہوری اور غیر سیاسی روش کو اختیار کیا جاتا ہے۔یہی سبب ہے کہ پاکستانی سیاست میں کبھی فرشتوں،کبھی خلائی مخلوق،کبھی لاڈلا تو کبھی لاڈلا پلس جیسی اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مسلم لیگ نواز کی توجہ سندھ اور بلوچستان میں اپنے سیاسی حلیف تلاش کرنے پر ہے۔پنجاب جو کبھی مسلم لیگ کا گڑھ تھا اور جسے گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف نے بڑی حد تک حاصل کر لیا تھا اب اس کے زیر عتاب ہونے کے باعث ایک بار پھر مسلم لیگ کو یہ یقین ہے کہ وہ اس خلاء کو آسانی سے پرکرلے گی۔یہی وجہ ہے کے وہ پنجاب سے باہر سیاسی مورچہ لگائے ہوئے ہے۔اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری بھی سندھ سے باہر دیگر صوبوں میں زیادہ متحرک نظر آرہے ہیں۔اور ان کی توجہ گلگت،بلتستان،خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب پر زیادہ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز جو بظاہر ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اس کی موجودہ سیاسی سرگرمیاں مستقبل کے حلیف تلاش کرنے پر مشتمل ہیں ۔ لندن سے واپس آنے کے بعد نواز شریف کی ساری گفتگو کا مرکز ان کی اپنی ذات رہی ہے۔ ان کی تمام گفتگو کا حاصل ان کی گزشتہ حکومت کے تذکرے کے سوا اور کچھ نہیں اور وہ کس طرح 7 201 ء میں حکومت سے الگ کئے گئے اسی پر انہوں نے اپنا موجودہ انتخابی بیانیہ تشکیل دیا ہے۔ اپنے تمام تر حکومتی تجربے کے باوجود ان کے پاس عوام کے مسائل کے حل کے لئے کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہے۔ ان کی سیاسی کامیابی کا انحصار عمران خان اور تحریک انصاف سے متعلق عدالتی فیصلوں پر ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی یقین دہانیوں پر ان کا سیاسی مستقبل وابستہ ہے۔ اسی طر ح پاکستان پپلز پارٹی کے بلاول بھٹوزرداری نے بھی اپنی انتخابی مہم میں کوئی معاشی اورانتظامی بہتری کا منصوبہ پیش کرنے کے بجائے سیاست دانوں کی کہنہ سالی کو بنیادی موضوع بنایا ہوا ہے۔ان کے خیال میں بیشتر سیاست دان ستر سال اور اس سے زائد عمر کے ہو گئے ہیں لہذا انہیں اب گھر میں یا مدرسے میں بیٹھ کر ملک کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور ملک کی سیاست نوجوانوں کے سپرد کردینی چاہیئے اس کے لئے وہ خود کو سب سے زیادہ موزوں قرار دے رہے ہیں ۔ اپنی یہی وہ واحد خوبی ہے جسے وہ اپنی انتخابی کی بنیاد بنائے ہوئے ہیں۔سیاست میں نوجوان اور پر عزم قیادت کا خیر مقدم کیا جانا چاہیئے کہ وہ عصری تقاضوں کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں لیکن سیاسی قیادت کے لئے اسے واحد اہلیت نہیںہونا چاہیئے جیسا کہ بلاول بھٹو زرداری اپنی انتخابی مہم میں پیش کر رہے ہیں۔سیاسی قیادت کی اہلیت یا نا اہلیت کی بنیاد محض عمر نہیں ہوتی۔ اسے دور اندیش، معاملہ فہم،عوامی مسائل سے واقفیت ،عالمی سیاسی حرکیات اور جدید معاشی تصورات سے واقف ہونا چاہیئے ۔بد قسمتی سے پاکستان میں قیادت عمومی طور پر ان جوہری خوبیوں سے محروم رہی ہے ۔پاکستانی سیاست میں کامیابی کے لئے مختلف لسانی، علاقائی ، قبائلی اور مذہبی عصبیتیں کارفرما ء رہتی ہیں اس پر مستزاد اسٹیبلشمنٹ کی قبولیت کو عوامی مقبولیت پر ترجیح حاصل ہے۔تمام ہی سیاسی جماعتیں اقتدار کے لئے ان ہی دائروں میں رہنے میں اپنی عافیت سمجھتی ہیں ۔ جس کے نتیجے میں عوامی مسائل پر سیاسی جماعتوں کی توجہ کم رہتی ہے اور وہ ان کے حل کے لئے پوری طرح تیار بھی نہیں ہوتیں۔ یہی پاکستان کی سیاسی تاریخ رہی ہے ۔ پاکستان اس وقت بے شمار داخلی اور خارجی مسائل میں الجھا ہوا ہے ۔معیشت،آبادی ، توانائی،مہنگائی،بے روزگاری اورریاست کی سلامتی جیسے اہم معاملات پر سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی واضح بیانیہ موجود نہیں ہے جسے وہ انتخابات کے لئے اپنی سیاسی مہم کا حصہ بنائیں اور سب سے اہم بات یہ کہ عوام ان سے اس کا مطالبہ بھی نہیں کرتے۔ لگتا ہے سب ہی دائروں کی مسافت پر مطمئن ہیں ۔