اسرائیل کی وحشت ناک بمباری ، جس نے 49دنوں میں تقریباً15ہزار افراد کوشہید کردیا ، جس میں چھ ہزار بچے اور چار ہزار خواتین شامل ہیں۔اب ایک عارضی جنگ بندی نے فلسطینی خطہ غز ہ کے مکینوں کو سانس لینے کا موقعہ فراہم کردیا ہے۔ اس خطہ میں موت کے رقص کے دوران ، لوگ کس طرح زندگی گذار رہے تھے، فری لانس خاتون صحافی صفاء الحسنات کا کہنا ہے کہ بس ادھار کی زندگی جی رہے تھے اور یہ پتہ نہیں تھا کہ اگلے ایک منٹ کے بعد زندہ ہونگے یا نہیں۔ جنگ بندی کے اگلے د ن صفاء الحسنات ٹیلی فون پر رابطہ ہوا اوراس سے قبل کہ لبوں کو حرکت دیتا، انہوں نے کسمپرسی کی ایسی ہوشربا دردرناک داستان بیان کی،جس نے ہو ش اڑا دیے۔ شمالی غزہ کی مکین الحسنات کے شوہر 7اکتوبر سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔ وہ ابھی سوگ کی حالت میں تھیں، کہ جنگ شروع ہوگئی اور اسرائیل نے شمالی غزہ کو خالی کرنے کا فرمان جاری کردیا۔ چار یتیم بچوں کو لیکر وہ جنوبی غزہ کی طرف روانہ ہوگئیں، جہاں وہ کسی کو نہیں جانتی تھیں، خیر کسی نے ان کو مہمان بنالیا۔ مگر اسی رات ان کے پڑوس میں شدید بمباری ہوگئی اور وہ کسی دوسرے ٹھکانے کی تلاش میں نکل گئی۔ دوسرا ٹھکانہ تو مل گیا، مگر صبح سویرے اس مکان پر بھی بمباری ہوگئی اور بڑی مشکل سے بچوں کے ساتھ وہ جان بچاکر ملبہ سے باہر آگئی۔ اس دوران ان کے ایک بچے کو چوٹ بھی آگئی۔ مگر اس وقت زخم کو کون دیکھتا، زندگی بچ گئی تھی۔ مگر اب کوئی ٹھکانہ نہیں رہ گیا تھا۔ رات گئے تک وہ غزہکی سڑکوں پر گھوم گھوم کر اپنے اور بچوں کیلئے چھت تلاش کرتی رہیں۔ سلطان محلہ میں ایک کمرہ میں جگہ مل گئی، جہاں تین خاندان پہلے ہی رہ رہے تھے۔ پناہ تو مل گئی، مگر پیٹ کی آگ بھی بجھانی تھی۔ان کی کہنا تھا کہ صبح سویرے بچوں کو الوداع کرکے بیکری کے باہر ایک لمبی قطار میں روٹی کا انتظار کرنا پڑتا تھا اور کسی وقت باسی روٹی ہی مل پاتی تھی، جس پر پھپھوندی جمی ہوئی ہوتی تھی۔ ہمہ وقت اسرائیلی بمباری کا خطرہ ہوتا تھا۔’’ اکثر اسرائیلی بمبار طیارے اسی طرح کے ہجوم کو نشانہ بناتے تھے۔ خیر روٹی کے ملنے کے بعد پانی کی ایک بوتل ڈھونڈنے کا مرحلہ طے کرنا ہوتا تھا۔ چونکہ گیس یا دیگر ایندھن کے ذرائع مسدود کردیے گئے تھے، اس لئے پرانے زمانے کے مٹی کے چولہے پر کھانا بنانے اور روٹی کو گرم کرنے کیلئے لکڑی اور کوئلہ کی تلاش میں سرگرداں ہونا پڑتا تھا۔‘‘ الحسنات کہہ رہی تھیںکہ صبح سویرے جب بچوں کو الوداع کرتی تھی، تو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ واپس روٹی، پانی اور لکڑی لیکر آئوں گی یا میری لاش ان کے پاس پہنچ جائیگی۔ جس گھرمیں کسی عزیز کی لاش پہنچتی تھی ، وہ بھی اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتے تھے، کہ انہوں نے عزیز کا جنازہ پڑھا۔ ورنہ بمباری سے ملبہ کے اندر ہی لاشیں دب جاتی تھیں یا ان کی شناخت ہی نہیں ہوپاتی تھی اور پھر گھر والوں کو لاش ڈھونڈنے کی تگ ودو کرنی پڑتی تھی۔ وہ بتا رہی تھی کہ ’’گھر سے نکلتے وقت اکثر مجھے لگتا تھا کہ شاید آخری وقت بچوں کا چہرہ دیکھ رہی ہوں۔کیا پتہ اس دورا ن اسرائیلی بمباری سے یہ ٹھکانہ بھی مسمار ہو جائے۔ یہ بچے حال ہی میں یتیم ہو گئے تھے اوران کی آنکھیں اور اداس معصوم چہرے بتاتے تھے کہ اب وہ ماں کے آنچل سے اتنی جلدی محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ کھانا حاصل کرنے کی اس تگ و دو کے بعد صحافتی ذمہ داریاں بھی نبھانی تھی اور پھر اسٹوری حاصل کرنے کیلئے میدان میں آنا پڑتا تھا۔ یہ میرے پورے ایک دن کا ٹائم ٹیبل تھا۔ اس لئے اگر میں نے اس دورا ن فون نہیں اٹھایا یا کال کا جواب نہیں دیا، ، تو مجھے معافی ملنے کا پورا حق ہے۔‘‘ اس گفتگو کے بعد پھر کون شکایت کرتا۔ یہ نہ صرف الحسنات ، بلکہ پورے 20لاکھ غزہ کے مکینوں کی کہانی تھی۔ اسرائیلی بمباری کے سائے میں 49دن انہوں نے کم و بیش اسی طرح گذارے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس عارضی جنگ بندی کو لاگو کروانے اور اس پر اسرائیل کو راضی کروانے کیلئے امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان 13 بار فون پر بات چیت کے دور ہوئے اور اس کے علاوہ امریکی صدر نے مسلسل قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی کے ساتھ رابط بنائے رکھا۔ انقرہ، دوحہ اور بیروت میں مقیم مذاکرات کاروں نے راقم کو بتایا کہ قطر نے گو کہ اس معاہدے کی ثالثی میں اہم کردار ادا کیا، مگر اس میں ایران، مصر اور ترکیہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ چھ صفحات پر مشتمل جنگ بندی دستاویز میں اسرائیلی فوجی سرگرمیاں بند کرنے، جنوبی غزہ پر اسرائیلی پروازوں پر پابندی اور شمالی فضائی حدود میں کارروائیوں کو محدود کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔اس کے علاہ قیدیوں کے تبادلہ کا نظم بھی واضح کردیا گیا۔ اس کی داغ بیل اور خد و خال 25 اکتوبر کو قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی اور وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے کوآرڈینیٹر بریٹ میک گرک کے ساتھ طے پائے گئے تھے۔ عالمی سطح پر احتجاج اور عرب ممالک خاص طور پر اس کے حکمرانوں کے احتجاج نے امریکہ کو اسرائیل پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر مجبور کردیا۔ ان مذاکرات پر نظر رکھنے اور جلد فیصلہ لینے کیلئے ، قطر، امریکہ اور اسرائیل کے نمائندوں کا ایک "سیل" ترتیب دیا گیا۔ اس میں امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز،قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، اور میک گرک، اسرائیل کے موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا شامل کئے گئے۔ قطر کے امیر نے وزیر اعظم عبدالرحمن الثانی کو "سیل" کیلئے نامزد کردیا، تاکہ فیصلہ سازی میں آسانی ہو۔ بعد میں اس عمل میں ترک وزیر خارجہ حکان فیدان،جو ایک سابق اینٹلی جنس سربراہ ہیں ، اور مصری انٹیلی جنس کے سربراہ عباس کامل نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اس سے پہلے کہ مذاکرات کوئی سنجیدہ موڑ لیتے، دوحہ، استنبول اور بیروت میں حماس کی سیاسی قیادت کو کہا گیا کہ وہ زمین پر اور عسکری قیادت پر اپنی گرفت کو ثابت کریں، تاکہ بعد میں معاہدہ کے بعد ان کی زمینی قیادت ا س سے انکاری نہ ہو۔ اس کامظاہرہ کرنے کے لیے، حماس نے 21 اکتوبر کو امریکی شہریوں جوڈتھ اور نٹالی رانان کو رہا کردیا، جس سے قطر کی ثالثی کی صلاحیتوں پر اعتماد بڑھ گیا اور حماس کی سیاسی قیادت پر اعتماد قائم ہوگیا۔تاہم یہ مذاکرات دو بار تعطل کا شکار ہو گئے۔ پہلی بار جب اسرائیلیوں نے 29 اکتوبر کو زمینی حملہ کیا اور دوسری بار 15 نومبر کو جب اسرائیل نے غزہ کے الشفاء ہسپتال کا محاصرہ کردیا۔ لیکن سی آئی اے کے سربراہ نے قطری وزیر اعظم اور موساد کے سربراہ کو بات چیت جاری رکھنے پر آمادہ کردیا۔ذرائع کے مطابق بائیڈن کی قطر کے امیر کے ساتھ براہ راست فون کال نے بھی بات چیت کی بحالی میں مدد کی۔ تل ابیب میں میک گرک نے اسرائیلی قیادت کو بائیڈن کا پیغام پہنچایا۔ الشفا ہسپتال پر اسرائیلی حملے کے بعد جب روابط دوبارہ منقطع ہو گئے، تو اس کو بحال کرنے میں دو دن لگ گئے۔ اس طرح 18 نومبر کو میک گرک اور برنز نے ایک مسودہ کے ساتھ قطری وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ قطری وزیراعظم نے اس مسودے پر حماس کے رہنماؤں سے کئی گھنٹے تک بات چیت کی۔اجلاس میں حماس کے سربراہ اسماعیل حانیہ، سابق سربراہ خالد مشعل اور دیگر اہم پولیٹ بیورو کے ارکان بھی شامل تھے، تاکہ بعد میں کسی کو شکایت کا موقعہ نہ ملے۔ ایک طویل اعصاب شکن بات چیت کے بعد بالآخر سی آئی اے کے سربراہ برنز اور قطری وزیر اعظم نے چھ صفحات پرمشتمل معاہدہ اسرائیل کے حوالے کرنے کے لیے تیار کردیا۔حزب اللہ نے حماس کو بات چیت اور فیصلہ کرنے کا کلی اختیار دے دیا اور یہ باور کرادیا کہ حزب اللہ خود کسی بات چیت کا حصہ نہیں بنے گا، مگر حماس ، جو معاہدہ کریگا، وہ اس کی پاسداری کریگا۔ اس تگ ودو کے بعد ہی غزہ ے مکینوں کو راحت کی چند سانسیں لینے کا موقعہ ملا۔ مگر کب تک۔ جب تک فلسطین کے مسئلہ کا کوئی پائیدار حل عمل میں نہیں لایا جائیگا، تب تک جنگ بندی عارضی ہی رہیگی۔ پائیدار حل ہی میں اسرائیل کی سلامتی بھی ہے، مگر ان کو کون سمجھائے۔ ٭٭٭٭٭