سکوں نہیں ہے میسر مجھے وطن میں کہیں دہک رہی ہے کوئی آگ سی بدن میں کہیں وہ کیف جو کہ مہک میں نہیں ہے پھولوں کی رکھا گیا ہے فقط خار کی چبھن میں کہیں ایک اور شعر ’’مجھے خبر تھی کہ منزل کوئی نہیں میری۔ کمی نہ آئی ذرا سی مگر لگن میں کہیں‘‘ دوستو! آج اگرچہ دہکتا ہوا موضوع بجلی کے بلوں پر عوام کا پرزور احتجاج ہے اور حکومت وہی گونگلوں سے مٹی جھاڑنے کی روش پر ہے۔ اچھا ہے کہ اس احتجاج کو انگیخت لگانے کے لیے جماعت اسلامی بھی نکل آئی ہے اور 2ستمبر کو ملک گیر ہڑتال کی کال بھی دے دی ہے۔ لوٹنے والوں نے ساری حدیں پار کر لی ہیں سب کچھ برباد کر کے سب ایک ایک کر کے لندن جا بیٹھے ہیں، اسحاق ڈار بھی پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ میں غلط نہیں لکھ رہا ہوں یہ وطن اب ان کا ہے ہی نہیں۔ یہ یہاں صرف تجارت گری کرنے آتے ہیں۔ کیا ہی اچھا بیان نواز شریف کا ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر مہنگائی ختم کر دیں گے۔ کیا چھوٹا مہنگائی کرنے اور بڑا مہنگائی ختم کرنے کے لیے ہے۔ سب کچھ مضحکہ خیز ہے۔ چلئے اب میں آتا ہوں اپنے موضوع کی طرف کہ مجھے آج تعلیم پر کچھ عرض کرنا تھا۔ باعث تحریر یہ کہ آج پہلے دن میرا بیٹا عزیز بن سعد کالج گیا ہے۔ صبح بارش تھی سو میں اسے گاڑی پر چھوڑ آیا کہ پہلا دن بچوں کے لیے جذبوں اور امنگوں سے بھرا ہوتا ہے۔ اس نے نمبر بھی ماشاء اللہ 1047لیے اور ہر طالب علم کی طرح اس کی آنکھوں میں بھی فردا کے خواب نظر آ رہے تھے۔ مجھے ورڈز ورتھ یاد آیا کہ وہ بھی اپنی بہن کے ساتھ سیر پر تھا تو اس کی آنکھوں میں اس نے اپنے خواب اور جذبے دیکھے کہ جو پہلی مرتبہ اس نے دریا کا منظر دیکھ کر محسوس کیے تھے۔ کہنے کو اک الف تھا مگر اب کھلا کہ یہ پہلا مکالمہ تھا مرا زندگی کے ساتھ مجھے جان بھی یاد آیا جس نے گونجتے ہوئے سبزہ زار میں بچوں کو اودھم مچاتے ہوئے دیکھا تو اسے اپنا بچپن یاد کیا گیا۔ معزز قارئین اس گونجتے سبزہ زار سے مجھے نہایت دلچسپ قصہ یاد آیا کہ میں ایک پبلشر کے پاس بیٹھا تو انہوں نے اپنی گرائمر کی کتاب تھمائی کہ جائزہ لیں۔ اتفاق سے یہی نظم مجھے نظر پڑی تو تنقید میں مصنف یعنی گرامر کا مصنف لکھ رہا تھا کہ گرمی سے تنگ آئے یہ بچے گونجتے سبززار میں آ گئے اور بہار کا لطف لینے لگے۔ میں نے مسکرا کر پبلشر سے کہا کہ یہ کس احمق نے لکھی ہے۔ قسمت سے مصنف بھی وہیں موجود ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا غلط ہو گیا۔ تب میں نے انہیں وضاحت کی کہ آپ کو موسموں کی ترتیب کا علم ہونا چاہئے کہ بہار گرمی کے بعد میں نہیں آتی۔ میں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کیٹس نے ان چار موسموں کو انسان کے چار موسموں کے مقابلے پہ رکھا ہے۔ سب سے پہلا موسم بہار ہے، انسان کے بچپنے کے مقابلہ پر کہ جب پھول ہی پھول ہیں اور تتلیاں، بچے کے بھی خواب ہی خواب ہوتے ہیں اور مسکراہٹیں۔ اس کے بعد گرمی کا موسم ہے کہ بچہ جوان ہوتا ہے اس کے اعضا میں مضبوطی آتی ہے جب پودے بڑے ہوتے ہیں۔ آپ اسے یوتھ کہہ سکتے ہیں اس کے بعد خزاں کا موسم ہے کہ جس میں تجربہ آتا ہے یہ پت جھڑ کا موسم ہے مگر پھلوں میں رس پڑتا ہے۔ یہ خزاں انسان کی ادھیڑ عمر میں ہے۔ اس کے بعد چوتھا موسم سردی ہے جو انسان کا بھی آخری سیزن ہے۔ یعنی بڑھاپا۔ آخری بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ فطرت میں تو پودے اور درخت سال میں یہ دائرہ مکمل کر کے اور پھر سے بہار آ جاتی ہے۔ مگر انسان کے پاس گنجائش نہیں مگر اس کے پاس تخیل تو ہے۔ میں نے بات بہت اختصار سے بیان کی ہے۔ اصل میں میں اساتذہ کو مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ توجہ کے ساتھ ٹیکسٹ کو سمجھیں اور اس کے بارے میں لکھیں۔ میں جب انگریزی پڑھاتا تھا تو کئی سوالات اٹھاتا تھا۔ ایک اور بات میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی کانسپٹ کلیئر نہیں تو بچوں کو گمراہ نہ کریں۔ تیاری کر کے پڑھائیں اور بات یہ کہ رٹا نہ لگوائیں تخلیقیی مشق کروانے کی کوشش کریں۔ خاص طور پر انگریزی میں۔ بچوں سے ایڈنگ بھی کروائی جا سکتی ہے۔ خاص طور پر میں ان بچوں کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں جو میٹرک سے فوری بعد ایف ایس سی میں آتے ہیں۔ وہ اپنی لیاقت کے حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایف ایس سی میں یک دم سب کچھ انگریزی میں آ جاتا ہے۔ ایک اور بات بچے اردو اور انگریزی نہیں سمجھتے اور پھر ان مضامین میں مارے جاتے ہیں۔ ویسے بھی اردو اور انگریزی اگر اچھی طرح پڑھی جائے تو یہ دماغی نشوونما بھی کرتی ہے کہ سائسن کے مضامین ذرا خشک ہوتے ہیں جبکہ اردو انگریزی انہیں کچھ لذت آشنائی دیتی ہے۔ زندگی کا ایک اور تجربہ یہ ہے کہ اگر بچہ اس پریکٹس پر عمل کر لے تو شاد بھی رہے گا اور بہت آگے نکلے گا۔ بچے اگر یہ عادت ڈال لیں کہ علی الصبح نماز پڑھیں اور صاف ستھرے لمحوں کو استعمال بھی لائیں کہ تازہ ساعتیں بہت قیمتی ہوتی ہیں۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ کہ آپ جلد سو بھی جائیں گے اور رات اللہ نے سونے کے لیے بنائی ہے اور دن کسب رزق کے لیے۔ تعلیم بھی کسب رزق ہی ہے۔ بس اتنا ہی کافی ہے’’شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات‘‘ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ تعلیم کا بدل کوئی نہیں۔ آپ کو خود ہی محنت کر کے لائق ہونا ہے وگرنہ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں تعلیم ہے ہی نہیں۔ کبھی نہ کبھی دور ضرور آئے گا کہ تعلیم یافتہ نسل اور جاہل حکمرانوں سے اقتدار چھین لے گی اور پھر یہاں بھی آئین اور قانون کی پاسداری ہو گی۔ اب اقبال ہی یاد آتے ہیں’’زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘‘۔