الیکشن میں اب 70دن سے کم رہ گئے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت تضاد کا شکار ہے باپ اور بیٹے کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں انہوں نے ایک پبلک میٹنگ میں کہا کہ پرانے لوگوں کو اب سیاست چھوڑ دینی چاہیے اور نئے لوگوں کو موقع دینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 70فیصد لوگوں کی عمر 30سال سے کم ہے اور ان کی ایک بڑی اکثریت ہے اس لیے ان کے فیصلے کرنے کے لیے بھی نوجوان قیادت موجود ہونی چاہیے۔ وہ نواز شریف اور عمران خان پر تنقید کر رہے تھے کہ 80سالہ لوگ نوجوانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو چاہتے ہیں کہ پارٹی پر ان کی گرفت مضبوط ہو اور وہ آزادانہ فیصلے کر سکیں کہ اس سلسلے میں وہ اس بات کے خواہشمند ہیں کہ ان کے والد سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری اب پارٹی کے معاملات میں مداخلت کم سے کم کریں۔ دوسری طرف جناب آصف علی زرداری نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا کہ بلاول ابھی نہ تجربہ کار ہے، ہم اس کی تربیت کر رہے ہیں۔ آصف علی زرداری کی سیاست جوڑ توڑ کی سیاست ہے وہ جوڑ توڑ کی سیاست کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں۔ 2008میں آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور پاکستان پیپلز پارٹی 2008کے میں اقتدار میں آئی۔ 2008سے لے کے 2013تک جناب آصف علی زرداری کی فہم و فراست کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے اقتدار کے پانچ سال تو مکمل کر لیے یہ الگ بات ہے کہ انہیں ایک وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کی قربانی دینا پڑی مگر وہ اقتدار کے پانچ سال پورے کر گئے لیکن ان پانچ برسوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں بہت زیادہ فرق پڑا اور پیپلز پارٹی پورے پاکستان کی جماعت کے بجائے سندھ کی ایک پارٹی بن کے رہ گئی۔ پنجاب میں 2013کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو بہت کم نشستیں ملی ہیں اور صورتحال 2018میں یہاں تک پہنچی کہ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے صرف چھ صوبائی ممبر تھے۔ آصف علی زرداری کی جوڑ توڑ کی سیاست نے پیپلز پارٹی کو 2008سے لے کے 2023تک سندھ کی حکومت کا موقع دیا اور دوسری طرف پیپلز پارٹی نے 2008سے 2013تک مرکز میں حکومت کی اور اس کے بعد 2022اور 23کی حکومت میں پیپلز پارٹی کو اقتدار میں شرکت ملی۔ آصف علی زرداری کی ذات تھی جنہوں نے عمران خان کے خلاف قرارداد عدم اعتماد کو منظور کروانے میں بہت اہم رول ادا کیا ۔اب بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کو پرانی لائن پہ چلانا چاہتے ہیں جو کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی لائن تھی اور محترمہ بے نظیر کی لائن تھی وہ پارٹی کو عوام میں مقبول بنانے میں زیادہ سنجیدہ تھے جبکہ آصف علی زرداری کا زور عوام کے بجائے ڈرائنگ روم کی سیاست پر ہے اور وہ نئے اتحاد بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں اب جب پیپلز پارٹی کی مقبولیت پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں بہت کم ہے اور سندھ میں بھی اس کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت باپ بیٹے کے درمیان اختلافات پیپلز پارٹی کے لیے بڑا مسئلہ پیدا کر سکتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ پیپلز پارٹی کس طرح اس بحران سے آگے بڑھتی ہے جب 1988میں محترمہ بے نظیر وزیراعظم بنی تھیں تو انہوں نے پیپلز پارٹی کے بہت سے پرانے لیڈروں کو فارغ کر دیا تھا۔ وہ ان انکلوں سے بہت زیادہ تنگ تھیں، اسی وجہ سے جناب غلام مصطفی جتوئی، مصطفی کھر، معراج خالد جیسے تجربہ کار لوگ پیپلز پارٹی چھوڑ گئے اور بے نظیر نے پیپلز پارٹی کو عوامی جماعت بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا اور 2007میں جب ان کی شہادت ہوئی تو وہ پیپلز پارٹی کی آنے والے الیکشن میں جیت یقینی بنا چکی تھیں۔ دوسری طرف اگر ہم پاکستان مسلم لیگ نواز کو دیکھیں تو وہاں پہ بھی دو نظریات ہیں۔ جناب نواز شریف عوام کی بالادستی کی بات کرتے ہیں اور ووٹ کو عزت دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جبکہ شہباز شریف مقتدر حلقوں سے مفاہمت کے ذریعے اقتدار کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ یہ شہباز شریف کی سیاسی فہم و فراست تھی اس کی بنا پر پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ ایک مشکل دور سے نکل کر اقتدار تک پہنچی اور اور پاکستان مسلم لیگ نون کے قائدین پر بہت سارے مقدمات ختم ہوئے اور اب دو ہزار 24کے الیکشن میں وہ مضبوط حلقوں کی حمایت یافتہ جماعت سمجھی جا رہی ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ نواز میں اختلافات کبھی کھل کر سامنے نہیں آتے۔ نواز شریف جو فیصلہ کرتے ہیں سب لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں۔ پارٹی کے لیڈر نواز شریف ہی ہیں اور ان کے بعد اگر کوئی اہم شخصیت ہے تو وہ مریم نواز کی ہے جن کا بیانیہ بھی خود مختار جمہوریت کا بیانیہ ہے اور وہ بھی مفاہمت کے ذریعے اقتدار حاصل نہیں کرنا چاہتیں۔اس وقت الیکشن میں تیسری پارٹی پاکستان تحریک انصاف ہے جو اس وقت کافی افرا تفری کا شکار ہے اور اس کی مرکزی قیادت میں سے بہت کم لوگ بچے ہیں جو اب تک پارٹی کے ساتھ ہیں۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ کون لوگ ہوں گے جو 2024کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے حصہ لیں گے۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں جو فرد سب سے نمایاں نظر آیا ہے وہ عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت ہے۔ شیر افضل مروت نے کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف کے دو تین ورکر کنونشن سے خطاب کیا ہے ، وہ کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف کے وزارت اعلی کے امیدوار کے طور پر بھی ابھرنا شروع ہو گئے ہیں ۔جناب نواز شریف بھی اس وقت پاکستان مسلم لیگ نواز کی انتخابی مہم کو بڑے اچھے طریقے سے چلا رہے ہیں۔اور وہ مختلف علاقائی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر رہے ہیںتاکہ آنے والے الیکشن میں ان کی حکومت آسانی کے ساتھ بن سکے۔