گزشتہ سال اگست میں پاکستان کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد میری سب سے اولین ترجیح یہ تھی کہ جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لئے کام کیا جائے۔ اپنی مشکل تاریخ کے باوجود پاکستان اور بھارت کو غربت ‘ بے روزگاری اور ماحول کی تبدیلی خصوصاً گلیشیرز کے پگھلنے کے خطرات اور پانی کی قلت کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ میری خواہش تھی کہ بھارت کے ساتھ تجارت اور تنازع کشمیر کے حل کے ذریعے تعلقات کو معمول پر لایا جائے۔ انتخابات جیتنے کے بعد 26جولائی 2018ء کو میں نے ٹیلی ویژن پراپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں اگر وہ اس کے لئے ایک قدم اٹھائے گا ہم دو قدم اٹھائیں گے۔ اس کے بعد گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کا انتظام کیا گیا لیکن بھارت نے اسے منسوخ کر دیا۔ میں نے ستمبر میں مذاکرات اور امن کے حوالے سے نریندر مودی کو اپنے تین خطوط میں سے پہلا خط لکھا لیکن بدقسمتی سے امن مذاکرات شروع کرنے کے لئے میری تمام کوششیں بھارت نے رد کر دیں آغاز میں ہم محسوس کر رہے تھے کہ مودی بھارت میں مئی میں ہونے والے انتخابات کی وجہ سے بھارتی ووٹروں میں پائے جانے والے قوم پرستانہ جذبات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔

ان انتخابات سے چند ماہ قبل 14فروری کو ایک کشمیری نوجوان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر خودکش حملہ کیا جس کا الزام بھارت نے پاکستان پر لگا دیا۔ ہم نے اس بارے میں ثبوت مانگے لیکن مسٹر مودی نے سرحد پار سے پاکستان میں بھارتی فضائیہ کے لڑاکا طیارے بھیج دیے پاک فضائیہ نے ان میں سے ایک طیارہ مار گرایا اور اس کے پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔ ہم نے یہ عندیہ دے دیا تھا کہ ہم اپنا دفاع کرنا جانتے ہیںہم نے جوابی حملے کا راستہ نہیں چنا کہ اس سے کئی انسانی جانوں کا ضیاع ہو سکتا تھا۔ میں نے احساس دلانے کے لئے شعوری فیصلہ کیا کہ پاکستان دو ایٹمی طاقتوں کے مابین کشیدگی کو مزید بڑھاوا دینا نہیں چاہتا اور ہم نے بغیر کسی شرط کے بھارتی پائلٹ کو واپس لوٹا دیا۔

23مئی کو مسٹر مودی کے دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد میں نے انہیں مبارکباد دی اور امید ظاہر کی ہم جنوبی ایشیا کے امن ‘ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کریں۔ میں نے جون کے مہینے میں مسٹر مودی کو ایک اور خط لکھا جس میں میں نے انہیں دوبارہ امن مذاکرات کی پیشکش کی لیکن بھارت نے اس کا جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ ایک طرف تو ہماری طرف امن کوششیں جاری تھیںاور دوسری طرف ہم نے دیکھا کہ بھارت انٹرگورنمنٹل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان کو ’’بلیک لسٹ‘‘ قرار دلانے کے لئے لابنگ کو رہا ہے جس کا مقصد پاکستان کے خلاف خطرناک اقتصادی پابندیاں لگوانا اور اسے دیوالیہ قرار دلانا تھا۔

اس سے صاف عیاں تھا کہ مسٹر مودی نے ہماری امن کی خواہش کا غلط مطلب لیااور اسے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا۔ ہم محض مخالف حکومت کے خلاف نہیں ہیں ہم اس ’’نئے انڈیا ‘‘کے خلاف ہیں جس کا نظام وہ لیڈر اور ایک پارٹی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) چلا رہی ہے جو ہندو بالادستی کی پیداوار ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے بہت سے وزراء آر ایس ایس کے ممبر ہیں جس کے بانیان مسولینی اور ہٹلر کے معترف ہیں۔ مسٹر مودی آر ایس ایس کے دوسرے سب سے بڑے لیڈر ایم ایس گولوالکرکے بارے میں گہری عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور ان کو ’’پوجینا شری گوروجی‘‘ کہتے ہیں یعنی ایسا گورو جس کی پوجا کی جائے۔مسٹر مودی کے یہ گورو اپنی 1939ء کی کتاب ’’ووئی آورنیشن ہڈ ڈیفائنڈ ‘‘میں حتمی حل کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں کہ جرمنی نے اپنی نسل و ثقافت کو تخلیط سے بچانے کے لئے سامی نسلوں (یہودیوں) سے پاک کر کے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا۔ ہمیں ان کا قوی افتخار اپنے عروج پر نظر آتا ہے جرمنی نے ہمیں یہ بھی دکھایا ہے کہ نسلیںاور ثقافتیں اپنی اصل میں اختلاف رکھتی ہیں۔ اگر بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اس میں ہندوستان کے حوالے سے ہمارے لئے اس میں سیکھنے کے لئے  بہت کچھ موجود ہے۔ 

مجھے امید تھی کہ مسٹر مودی گجرات میں اپنی وزارت اعلیٰ کے دور کے برخلاف ایک بھارت کی منتخب وزیر اعظم کے طور پر قیادت کرینگے۔ اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں انہوں نے مقامی مسلمانوں کے خلاف اپنے 2002ء پروگرام کے حوالے سے عالمی بدنامی کمائی تھی اور انہیں انٹرنیشنل ری لیجس فریڈم ایکٹ کے تحت امریکہ کا ویزا دینے سے انکار کر دیا گیا تھا‘ یہ وہی ویزا فہرست ہے جس کے تحت سابق سرب صدر سلوبوڈن مائیلوسیوک کو بھی ویزا نہیں دیا گیا تھا ۔مسٹر مودی کی پہلی وزارت عظمیٰ مسلمانوں ‘ مسیحیوں اور دلتوں پر ہندو انتہا پسندوں کے ہجومی تشدد کے ساتھ شروع ہوئی ہم مقبوضہ کشمیر میں بہادر کشمیریوں کے خلاف بڑھتا ہوا تشدد دیکھ رہے ہیں۔وہاں پیلٹ فائرنگ شاٹ گن متعارف کرائی گئی ہیں جن کے ذریعے سینکڑوں کشمیری مظاہرین کو اندھا کر دیا گیا ہے۔ 5اگست کو مودی حکومت نے انتہائی ڈھٹائی اور متشدد طریقوں سے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے کی منسوخی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کر دی بھارتی حکومت کا یہ اقدام بھارتی آئین کے خلاف تو ہے ہی‘ یہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے شملہ معاہدہ کی بھی منافی ہے ۔

مودی کے ’’نیو انڈیا‘‘ نے یہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں فوجی کرفیو نافذ کر دیا گیاہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام گھروں میں نظر بند ہیں‘ ان کے فون انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن کنکشن کاٹ دیے گئے ہیں اور وہ بے یارومددگار ہو کر رہ گئے اور انہیں اپنے عزیز و اقارب کی کچھ خبر نہیں ہے۔ ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کر کے انہیں بھارتی جیلوں میں قید کر دیا گیا ہے کرفیو اٹھنے کی صورت میں مقبوضہ کشمیر میں خونریزی کا خوف پھیل چکا ہے۔ کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والے کشمیریوں کو گولی مار کرہلاک کیا جا رہا ہے۔

اگر دنیا نے کشمیر اور کشمیری عوام پر بھارتی حملے کو روکنے کے لئے کچھ نہ کیا تو اس کے پوری دنیا پر اثرات مرتب ہونگے اور ایٹمی طور پر مسلح دو ممالک براہ راست فوجی تصادم کے لئے ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہونگے۔ بھارتی وزیر دفاع نے یہ کہتے ہوئے پاکستان کو ملفوف ایٹمی دھمکی دی ہے کہ بھارت کی ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے میں پہل نہ کرنے کی پالیسی کا دارو مدار حالات پر ہے ۔اس قسم کے بیانات بھارتی لیڈر مختلف مواقع پر دیتے رہے ہیں پاکستان بھارت کے پہل نہ کرنے کے دعوئوں کو شکوک وشبہات کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اب جبکہ جنوبی ایشیا پر ایٹمی سائے منڈلا رہے ہیں ‘ہم محسوس کرتے ہیں پاکستان اور بھارت ہوش و دلجمعی سے کشمیر اور مختلف سٹریٹجک امور اور تجارت پر مذاکرات شروع کریں۔ کشمیر پر مذاکرات میں تمام سٹیک ہولڈرز خصوصاً کشمیریوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔ ہم نے پہلے ہی بہت سے آپشن تیار کر رکھے ہیں جن پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی طرف سے کئے گئے وعدوں پر کام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے ۔ 

مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے اسٹیک ہولڈر زکشمیر کے پائیدار حل کو پہنچ سکتے ہیں جس سے کشمیری عوام کو عشروں سے درپیش مصائب کا خاتمہ ہو گا اور خطے کو امن و استحکام نصیب ہو سکے گا۔ لیکن مذاکرات اسی صورت میں شروع ہو سکتے ہیں جب بھارت کشمیر سے اپنے غیر قانونی توسیع پسندانہ اقدامات واپس لے‘ کرفیو اور لاک ڈائون ختم کرے اور اپنی افواج میں کشمیر سے نکال کر واپس بیرکوں میں لے جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عالمی برادری تجارتی اور کاروباری مفاد سے بالا ہو کر سوچے دوسری جنگ عظیم کا آغاز جرمنی سے صرف نظر کی وجہ سے ہوا اس طرح کے خوف کے سائے دنیا پر دوبارہ چھا رہے ہیں لیکن اس بار یہ سائے ایٹم کے سائے ہیں۔(بشکریہ: نیو یارک ٹائمز)

عمران خان وزیر اعظم پاکستان