پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین سے وزیر اعلی ہائوس پشاور میں ملاقات ہوئی۔ عمران خان کے کچھ منصوبے تو ان کی باتوں سے عیاں ہیں ، چند ایک ایسے ہیں جن کے بارے میں لب و لہجے اور باڈی لینگوئج سے محض اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن کچھ سوال ایسے ہیں جن کے جواب اب بھی کسی کے پاس موجود نہیں نہ عمران خان کی باتوں میں ان کی جھلک ملتی ہے ۔ ایک بات تو واضح ہے عمران خان فوری لانگ مارچ کی کال نہ دینے پر آمادہ ہیں۔اس کی وجہ انہیں کرائی گئی کوئی یقین دہانی ہے یا نہیں ، اس کے امکانات پر بعد میں بات کرتے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ عمران خان کے ذہن میں فوری طور پر لانگ مارچ کی کوئی تاریخ موجود نہیںاور نہ ہی اگلے چند دن میں وہ اس کا اعلان کرنے والے ہیں۔ عمران خان کی حکمت عملی کا سارا انحصار سپریم کورٹ پر ہے ، وہ سمجھتے ہیں انہیں عدالت عظمی سے پُر امن احتجاج کی اجازت مل جائے گی جو ان کا قانونی حق ہے تب وہ ضرورت پڑنے پر لاکھوں لوگوں کو اسلام آباد لا سکتے ہیں۔لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے اجازت ملنے کی صورت میں بھی وہ فوری لانگ مارچ میں جانے سے گریز کریں گے اور حکومت پر لانگ مارچ کے اعلانات سے دبائو بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر کے عمران خان نے اپنے کارکنوں کو تھوڑا آرام اور تیاری کرنے کا وقت بھی دیا ہے لیکن تحریک انصاف کے کچھ حامی اس خدشے کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ کہیں اس تاخیر کے نتیجے میں عمران خان کے کارکن ان کا پڑھایا ہوا سبق بھولنے نہ لگ جائیں اور الیکشن کے حصول کا اصل مطالبہ کمزور نہ پڑ نے لگے۔ عمران خان کی گفتگو سے یہ تو لگتا ہے کہ وہ انتخابات کے اعلان کی یقین دہانی کرانے والوں کو بجٹ پاس کرنے اور آئی ایم ایف سے ڈیل مکمل کرنے تک کا وقت دینا چاہتے ہیںلیکن ساتھ ہی ساتھ وعدہ خلافی کا خدشہ ان کے دل میں موجود ہے۔ تبھی وہ اپنے کارکنوں کو تاکید بھی کر رہے ہیں کہ تیاری مکمل رکھیں گویا اگر وعدہ خلافی ہوئی تو دوبارہ لانگ مارچ کی کال دے دی جائے گی۔ عمران خان کی باتوں سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ دھرنا ختم کرنے کے لیے میڈیا میں چلنے والی ڈیل یا یقین دہانی کی خبریں غلط نہیں ہیں ۔ پشاور میں ہونے والی ملاقات میں جب ان سے پوچھا گیا کیا وہ کسی یقین دہانی کے نتیجے میں دھرنا چھوڑ کر بنی گالا چلے گئے؟ اس کے جواب میں انہوں نے واضح طور پر یہ نہیں کہا انہیں ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی بلکہ صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ انہوںنے انتشار کے خطرے کے پیش نظر واپس جانے کا فیصلہ کیا ۔ انہیں لگتا ہے وہاں رکتے تو گولی چلتی اور خوب خرابہ ہوتا۔ان کی گفتگو سے مجھے ایسا لگا جیسے کہہ رہے ہوں کہ انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی یقین دہانی یا ڈیل اس لیے قبول کی کہ انہیں انتشار کا خطرہ تھا۔ یعنی اگریقین دہانی قبول نہ کرتے تو اور کیا کرتے؟ اگلے روز اپنے انٹرویو میں جب سمیع ابراہیم نے ان سے یہی سوال کیا کہ کیا وہ مذاکرات کے بعد دھرنا چھوڑ کر گئے تھے تو انہوں نے جواب دیا وہ ہر مذاکرات کو خوش آمدید کہیں گے بشرطیکہ وہ انتخابات کا اعلان کرنے کے موضوع پر ہوں۔اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں بات چیت کاچینل کھلا ہوا ہے۔ عمران خان کو بار بار یہ خیال بھی آتا ہے کہ بات چیت کے بہانے ان سے وقت لیا جا رہا ہے ۔پندرہ بیس دن دینے کے لیے تو وہ ذہنی طور پر تیار نظر آتے ہیں مگر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان سے وعدہ خلافی ہوئی تو وہ دوبارہ نکلیں گے ،نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو۔وہ اتنا وقت دینے کو تو تیار ہیں کہ بجٹ اور آئی ایم ایف کی ڈیل مکمل کر لی جائے لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ واپس اسمبلیوں میں جائیں ، قانون سازی اور اہم تعیناتیوں کے مشاورتی عمل کا حصہ بنیں اور انہیں الجھا دیا جائے، وہ سمجھتے ہیں یہ بہت بڑا ٹریپ ہے جو ان پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملاقات میں جب ان سے سوال ہوا کہ کیا وہ چیف الیکشن کمشنر کی موجودگی میں انتخابات تسلیم کریں گے؟ انہوںنے جواب دیا ’’اداروں کے اندر بھی انسان بیٹھے ہیں، ملک کی تباہی پر ان کا بھی دل دکھتا ہے ، وہ بھی جانتے ہیں ملک کے لیے کیا اچھا اور کیا برا ہے،وہ غلط پالیسیوں کو سپورٹ نہیں کریں گے‘‘۔ گویا عمران خان کو لگتا ہے کہ اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ اپنے اپنے چیف کی بات نہیں مانیں گیاور اپنے دل کی آواز پر دھاندلی کے منصوبے کا حصہ نہیں بنیں گے۔ یہاں میرا خیال یہ ہے کہ عمران خان اپنی تحریک کی مقبولیت پر کچھ زیادہ ہی پُر اعتمادہیںاور قوم سے کچھ زیادہ ہی کی توقع لگائے بیٹھے ہیں ۔ بہرحال ایک سیاسی جنگ جاری ہے، نہ جانے یہ کتنی طویل ہو گی ، یہ اعصاب کی جنگ بھی ہے،معلوم نہیں عمران خان فوری طور پر نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا کچھ عرصے بعد یا پھر کبھی حاصل نہیں ہوتے ۔ ادھر نئی حکومت کا امتحان شروع ہو چکاہے ، پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے بعد مہنگائی کے فوری طوفان نے عوام کو گھیر لیا ہے۔ ابھی چند دن میں پیٹرول کی قیمتیں دوبارہ بڑھنے کا خدشہ ہے جس سے عوام کی قوت خرید ختم ہو کے رہ جائے گی۔ یہ تمام چیلنجز موجودہ حکومت کو فیصلہ کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں ، فوری انتخابات میں جائیں یا حالات کے صحیح ہونے اور قیمتیں کم ہونے کا انتظار کریں ۔ عمران خان مگر جلدی میں ہیں ، وہ ہر حال میں اکتوبر میں الیکشن چاہتے ہیں، دیکھئے ملتے ہیں یا نہیں ۔