خطیب منزل کراچی بھی ختم ہوئی۔بہت مدت سے اس گھر میں نہیں جاسکا تھا لیکن اس کے باوجود اس کے فروخت ہوجانے اور ملکیت کسی اجنبی ہاتھ میں چلے جانے کا سن کر کوئی تیز دھار سی شے دل پر خراش ڈالتی نکل گئی۔ شاید کچھ دن مزید یہ گھراسی طرح رہے ،لیکن ایک دن نئی بود و باش، نئی ضروریات اور نئے مسائل مل کر اسے ڈھا دیں گے۔یہاں ایک پلاٹ رہ جائے گا اور اس پر نئے خد وخال کی ایک نئی عمارت کھڑی ہوجائے گی۔ایسا ہی ہوگا اور ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ آبائی مکانوں اور جذباتی تعلق والی عمارتوں کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ان کے بارے میں فیصلوں کا راستہ دل سے ہوکر دماغ میں پہنچتا ہے۔ ہر نسل دو نسل کے بعد وراثت کی تقسیم،رقم کی ضرورت ،جائیداد کی خستہ حالی جیسے منہ زور عوامل ان مسکنوں کو فروخت کرنے پر مجبور کرتے رہتے ہیں ۔یہ دو دھاری دکھ ہے۔اگر گھر نہ بک پائے تو اس کی تکلیف الگ ہے۔بک جائے تو اس کا رنج علیحدہ ہے۔کیفیات سے چھلکتے شاعر ثروت حسین نے کہا تھا: روایت ہے کہ آبائی مکانوں پر ستارہ بہت روشن مگر نمناک و افسردہ ملے گا جو لوگ ان مرحلوں سے گزرے ہیں ،وہ شخصیات ہی کی نہیں عمارات کی جدائیوں کے گھاؤ بھی دل پر تمام عمر لیے بیٹھے رہتے ہیں۔کوئی ان کو سمجھ سکے تو اس تابناکی، نمناکی اور افسردگی کو بھی سمجھ سکتا ہے۔ میرے بڑے ماموں مولانا محمد متین خطیب پاکستان میں ہمارے اکلوتے سگے ماموں تھے۔ خطیب میرے ننھیال کے ناموں کا لازمی حصہ تھا۔خطیب ایک خطاب تھا جو اس گھرانے میں نسل در نسل چلا آتا تھا۔بڑے علمائ، اکابرین اور اساتذہ کی موجودگی میں بھی مرکزی عیدگاہ میں عیدین کی امامت کا شرف اسی خانوادے کو ملتا تھا۔میرے نانا مولانا محمد مبین خطیب ،دیوبند اور اور بعد ازاں انبالہ کی عیدگاہوں میں یہ فریضہ انجام دیتے رہے۔مولانا محمد مبین خطیب ،شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے خاص شاگردوں اور ان کے معتمدترین لوگوں میں سے تھے۔جب انگریز حکومت کے خلاف تحریک ریشمی رومال چلی تو میرے نانا اس میں پیش پیش تھے۔انڈیا آفس لائبریری ، لندن سے حاصل کردہ اس دور کی خفیہ سرکاری رپورٹیں منظر عام پر آکر کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہیں۔ایک رپورٹ میں مولانا محمدمبین خطیب کو مولانا محمود الحسن کے نہایت قابل اعتماد قریبی ساتھیوں میں شمار کیا گیا ہے ۔ لکھا گیا ہے کہ اس جماعت میں ان کا عہدہ کرنل کے برابر ہے اور بہت خاص پیغامات ان کے ذریعے بھجوائے جاتے ہیں۔میرے ماموں جناب محمد متین خطیب جن کے احوال پر ذکر متین کے نام سے کتاب چھپ چکی ہے،تحریک پاکستان کے پرجوش حامیوں میں سے تھے۔وہ پاکستان بننے کے بعد کچھ عرصہ لاہور میں رہے لیکن بالآخر کراچی میں مستقل مقیم ہوئے۔ناظم آباد کی مرکزی عیدگاہ میں عیدین کی امامت کے فرائض عمر کے آخری ایام تک انجام دیتے رہے۔ ناظم آباد نمبر 4میں ان کا بنایا ہوا گھر خطیب منزل کے نام سے تھا اور ہمارے لیے کراچی کے ان گھروں میں سے ایک، جن کی مٹی سے اپنی مٹی بنی ہوتی ہے ۔میرے دادا کا گھر اشرف منزل، چوک لسبیلہ، گارڈن ایسٹ ،کراچی اور خطیب منزل، ناظم آباد، کراچی کے وہ دو گھر تھے جنہوں نے ہمیں بچپن، لڑکپن ،نوجوانی کے ادوار سے گزرتے دیکھا اور ان ذائقوں میں اپنے نہ بھولنے والے ذائقوں کا اضافہ کیا۔اشرف منزل کی جگہ اب ان گنت فلیٹوں والی ایک عمارت کھڑی ہے اور خطیب منزل کے آئندہ خد وخال کا کچھ پتہ نہیں۔لکھنؤ کے عرفان صدیقی نے اپنی آخری عمر میں کیسے مشترکہ دکھ کا اظہار کیا تھا: بھول جائیں گے کہ رہتے تھے یہاں دوسرے لوگ کل جب آباد کریں گے یہ مکاں دوسرے لوگ چوک لسبیلہ سے لالو کھیت کا پل اتر کر دوسری چورنگی سے جب ہم دائیں طرف ناظم آباد کی سمت مڑتے تو ماموں کے گھر جانے کے تصور سے ہی دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی تھی۔لاروش ریسٹورنٹ کے سامنے سے گزرتے تو سوچتے کہ ایک دن ہم یہاں سینڈوچ کھانے اور چائے پینے ضرور آئیں گے۔ذرا آگے بائیں طرف ایک نالے کی چھوٹی سی پلیا عبور کرکے ناظم آباد نمبر 4 میں داخل ہوتے اور یہ بل کھاتی، گھومتی سڑک بالآخر دائیں طرف مڑتی ایک چھوٹی سڑک کے کنارے پر لے آتی جہاں کونے پر بجلی کا ایک کھمبا سیدھا اور ایک اور کھمبا شاید اسے سہارا دینے کے لیے ٹیڑھا لگا ہوا تھا اور میرے بچگانہ ذہن میںیہی اس گلی کی نشانی تھی۔گلی میں مڑتے ہی دائیں طرف کونے سے اگلا مکان وہ گھر تھا جس پر سفید سنگ مرمر پر سیاہی سے خطیب منزل، پلاٹ نمبر 4،رو نمبر 14،سب بلاک اے لکھا ہوا تھا۔اس گھر میں ہمارے لاڈ، ناز نخرے، آؤ بھگت اورخاطر مدارات مستقل مقیم تھے۔ہم سب بہن بھائی بچے تھے اورماموں ممانی کے بیٹے ،بیٹیاں جو ہم سے عمر میں کافی بڑے تھے۔زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ سمجھ دار تھے چنانچہ وہ ہماری مہمان نوازی کے ساتھ بہت پیار سے تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے ۔ان ماموں زاد بہن بھائیوں سے ہمیشہ بے حد محبت ملتی رہی چنانچہ ان سے محبت کا جو تعلق بنا وہ آج تک استوار ہے ۔ماموں گھر آتے تو ان کے ہاتھ قسم قسم کی چیزوں اور پھلوں سے بھرے ہوتے تھے۔وہ کشادہ دل ،فیاض اور کشادہ دست انسان تھے۔اور اپنی بہن اور ان کی اولاد کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے۔ مہمان نوازی ممانی جان پر بھی ختم تھی۔ کھلتے شہابی رنگ کی پر شفقت ممانی جان ناشتے اور کھانے پر اتنے اصرار کے ساتھ کھلاتیں کہ اپنے خاص الخاص ہونے پر ذرہ برابر بھی شک نہ رہتا۔ کیسی کیسی یادیں ہیں اس گھر کی ۔اپنے بڑے ماموں زاد بھائی معین بھائی مرحوم کی شادی پر بچپن میں کراچی کے شیر مال کا پہلا ذائقہ اسی گھر میں چکھا تھا۔شادی ختم ہوجانے کے بعد بھی یہ ذائقہ کھینچ کر اس ٹوکری کی طرف لے جاتا جہاں بچے ہوئے شیر مال رکھے گئے تھے۔چوری شیر مال کا مزا دو آتشہ کردیتی تھی ۔گھر کے باہر لگے ہوئے شریفے کے پیڑ کا پھل ایک الگ سوغات تھی جو لاہور میں نصیب نہیں تھی ۔یہ گھر درختوں ، پودوں ، پھولوں سے بھرا رہتا تھا۔ ماموں ایک ایک پودے کی خود دیکھ بھال کرتے تھے۔ایک چھوٹے سے حوض میں رنگ برنگی مچھلیاں تیرتیں۔اور ہاں ،ماموں کے کمرے میں ان کی لائبریری بھی توکمال جگہ تھی۔ نقوش کا دو جلدوں پر مشتمل لاہور نمبر پہلی بار یہیں دیکھا اور پڑھا تھا۔گھر کے قریب ہی ناظم آباد کلب تھا جہاں شادیوں کی تقریبات ہوتی تھیں ۔ایک زمانہ گزرنے کے بعداس کلب میں ایک مشاعرے میں شرکت ہوئی توساری تصویریں اس طرح تازہ ہوگئیں جیسے انہیں ابھی بنایا گیا ہو۔ہاتھ لگاؤ تو ہاتھ پر رنگ اتر آئیں۔ کچھ جگہیں ،گردو پیش ، ماحول اور سیاق و سباق کسی جملے کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ذہن میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اس وقت جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ،ایک خاص جگہ ، گرد و پیش، ماحول اور سیاق و سباق اس طرح میرے سامنے ہے جیسے دریچے کے باہر کا منظر ہو ۔ اورماموں کا جملہ ان کے مخصوص لہجے میں کان میں گونج رہا ہے کہ بھانجے ! سب ہی بھول جاتے ہیں۔ تم بھی بہت جلد بھول جاؤگے مجھے۔ ماموں جان ! بات تو سچ تھی ۔ سب ہی بھول جاتے ہیں ۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم اگر آپ کو اس طرح یاد نہ رکھ سکے تو بھولے بھی نہیں ۔ آپ ہمارے دل سے کبھی گئے نہیں ۔محبت دل سے کب جاسکتی ہے ؟ آپ کی محبت ہم نے فراموش نہیں کی ۔ اور آپ کو کیا بھولتے ہم تو خطیب منزل کو بھی کبھی نہیں بھول سکے ۔ وہ خطیب منزل جو اب نہ آپ کی ہے نہ آپ کی اولاد کی ۔دن ختم ہوچکا مگر دھوپ اس گھر کے در و دیوار سے نہ اتری۔ وہ دن گزر گئے وہ کیفیت گزرتی نہیں عجیب دھوپ ہے دیوار سے اترتی نہیں