تجزیہ: سید انورمحمود جمہوریت نے جس طرح پاکستان میں تشکیل پائی ہے ، سب تعداد اور نمبرز پر ہے ۔ مجھے اس ڈھانچے کی مبادیات پر تحفظات ہیں، خود جمہوریت کے متعلق کبھی نہیں۔ اس طرح ہمارے آئین کے مطابق جو جماعت قومی اسمبلی میں دوسروں سے زیادہ نشستیں رکھتی ہو وہی وفاقی حکومت بنانے کی حق دار ہے ۔صوبوں کیلئے بھی یہی طریقہ کار ہے ۔ پھر میں یہ واضح اور سامنے کی بات کیوں کر رہا ہوں؟صرف یہ واضح کرنے کیلئے جب موقع آتا ہے تو یہ اس طرح سے کام نہیں کرتی۔ ایسا 1970، 1971میں نہیں ہوا۔پاکستان کے دونوں حصوں کی تکلیف دہ اور اذیت ناک جدائی کے پچاس سال بعد آج بھی ایسا نہیں ۔ 1971ء میں شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں عوامی لیگ نے انتخابات میں قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں جیتی تھیں۔ اس طرح اسے وفاقی حکومت بنانے کیلئے جمہوری اور آئینی مینڈیٹ حاصل تھا۔تاہم اس وقت جو طاقتیں تھیں، جو اب موجودہ پاکستان میں ہیں، انہیں مرحوم بھٹو نے اس کے برعکس کرنے کیلئے قائل کیا۔ باقی سب کو معلوم ہے ۔اس لیے میں بالکل سامنے کی بات کو دوبارہ بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ ہمارے ملک میں جو ہمیں جان سے بھی زیادہ عزیز ہے ، ضروری نہیں کہ سامنے کی بات رائج اور غالب ہو۔اب نمبرز یعنی تعداد کی طرف آتے ہیں: 342رکنی ایوان میں مسلم لیگ ن 84نشستوں (مجموعی تعداد کا 25فیصد)کے ساتھ سب سے اہم وزارت عظمیٰ کا آفس حاصل کرتی ہے ، پیپلز پارٹی 55 نشستوں (15فیصد) کیساتھ ایک اور اہم عہدہ سپیکر قومی اسمبلی کا لے لیتی ہے ، جمعیت علمائاسلام 14 نشستوں کیساتھ (4فیصد) اگلا اہم عہدہ ڈپٹی سپیکر کا لے لیتی ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ 40رکنی وفاقی کابینہ میں آخری آدمی تک چلتا ہے ۔اور اب یہ قابل فہم نہیں ۔ تحریک انصاف 155 ارکان کے ساتھ باہر ہو جاتی ہے ۔اور کچھ لوگ اسے جمہوریت کی فتح قرار دیتے ہیں۔اگر 342رکنی ایوان میں 155 ارکان پر دروازے بند کر دینا، ایک دوسرے کو اکٹھا کرنا اور مختلف رنگوں والے تمام چھوٹے نمبرز کو جمع کر کے ایک کر لینا ہی جمہوریت ہے ، تو میں حیران ہوں کہ پھر کیا جمہوریت نہیں ۔ اگر اکثریت کو اقلیت میں بدل دینا جمہوریت ہے تو میں حیران ہوں کہ کیا ہے جو جمہوریت نہیں ۔ بڑے ہوتے ہوئے مجھے ہمیشہ بتایا گیا کہ سمجھدار دوسروں کی غلطیوں سے سیکھتا ہے ، کچھ اپنی ہی غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔ لیکن کچھ کسی بھی طرح نہیں سیکھتے ۔گزشتہ ماہ کے واقعات بتاتے ہیں کہ ہم کسی بھی طرح سے نہیں سیکھے ۔ میرے پاس کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کیلئے مددگار معلومات نہیں ہیں۔ لیکن اگر تاریخ سے کوئی رہنمائی مل سکے تو ہم نے پہلے ہی اپنے لئے ایک سیاسی بارودی سرنگ بچھا رکھی ہے جسے ہم ملک اور عوام کی بہت بھاری قیمت پر ہی ہٹا سکتے ہیں۔میں قومی سیاسی تقسیم کے دونوں جانب کے افراد کے معیار یا کردار پرتبصرہ نہیں کر رہا۔ عوام بہترین منصف ہوتے ہیں۔میں صرف ان نمبرز یعنی تعداد کے متعلق فکرمند ہوں جنہیں اپنے راستے پر چلنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔اور اس کے ساتھ سب سے اہم انحراف ، فلور کراسنگ اور بلیک میلنگ کا اہم مسئلہ آتا ہے ۔جبکہ ہماری معزز سپریم کورٹ نے سنگین قومی تشویش کے معاملے پر آدھی رات کو جمع ہونے کا بے مثال قدم اٹھایا، تو کیا یہ ایک جائز توقع نہیں ہوگی کہ وہ انحرام اور فلور کراسنگ جیسے اہم معاملے پر بھی ایسی ہی عجلت کا مظاہرہ کرے ، جسے عموماً ہارس ٹریڈنگ اور ’’لوٹا کریسی ‘‘ بھی کہتے ہیں۔کیونکہ آج ہماری جمہوریت کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی جڑ یہی ہے ۔صرف کاریگر بدلے ہیں،نہ سانچہ بدلا ہے اور نہ ہی ڈیزائن۔ پاکستانی جمہوریت کیلئے یہ افسوس ناک دن ہیں، در حقیقت خود پاکستان کیلئے ۔ ہم پچاس سال قبل اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کی بھاری قیمت چکا چکے ہیں۔ میری دلی دعا ہے کہ پاکستان اس خود ساختہ گند اور گڑبڑ سے بنا نقصان کے باہر نکل آئے ۔نقصان کو روکنے اورازالے کا یہی وقت ہے ۔فوری طور پر خودمختار کے پاس واپس جایا جائے ۔ ممکن ہے کل بہت دیر ہو جائے ۔سامنے والوں اور پس پردہ افراد کو پاکستان کو کنارے سے واپس لانے کیلئے اپنی پوری طاقت لگانا ہو گی۔ہر ادارے کو آج اس کام کو کرنے کیلئے اوورٹائم لگانا پڑے گااور استطاعت سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا، تاریخ دیکھ رہی ہے اور وہ کسی کو نہیں بخشتی۔