مکرمی! معاشرتی تفریق نے امیراورغریب دونوں کوپریشانی کے سواکچھ نہیں دیا، امیربغیرمشقت زیادہ کھانے کے باعث بیماریوں میں مبتلاہیں توغریب حدسے زیادہ مشقت اورفکروں کے سبب تھک جاتے ہیں،غریب بچوں کی صحت، تعلیم وتربیت کے اخرجات پورے کرنے کی کوشش میں وقت سے پہلے بوڑھے ہوجاتے ہیں توامیراپنے بچوں کی منشیات کی عادت ،آوارہ گردی، نافرمانی، بدتمیزی اورمن مانیوں کے ہاتھوں کرب میں مبتلارہتے ہیں،امیر اور غریب کے درمیان کی خلیج کوئی نئی بات ہے نہ ہی اسے ختم کرناممکن ہے ،یہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ کیلئے ہے،حق تویہ ہے کہ یہ زندگی اللہ سبحان تعالیٰ کی امانت اورآزمائش ہے ،امیرہویاغریب اسے ایک دن اپنے مالک کی طرف لوٹ جاناہے،خوش اورخوشحال وہی رہ سکتاہے جو اپنے حال پر حوش ہے اور اسے انسانوں کی بجائے اپنے مالک، خالق و رازق کی پاک ذات کے ساتھ توقعات وابستہ کرنی چاہئیں، صبروشکرسے کام لے،اپنے مالک کی رضامیں راضی رہنے کی کوشش کے ساتھ اپنی زندگی کوحلال رزق کے ذریعے بہترسے بہترین بنانے کی کوشش کرتارہے، امیرکوخیال رکھناچاہئے کہ جس مالک نے اسے بے شمارنوازاہے اُس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اختیارکرے ،اللہ کے عطاکردہ مال میں سے اسی کے راستے پرخرچ کرے اورمسکینوں پراحسان نہ جتلائے جبکہ حکمران جوامیروغریب سے ٹیکس وصول کرتے ہیں اُن کی ذمہ داری ہے کہ اپنے محکوموں کیلئے آسانیاں پیداکریں۔ (امتیازعلی شاکر،لاہور)