وزیراعظم عمران خان کی اسلام آباد‘ خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں حکومت کو تین سال مکمل ہوچکے ہیں۔ عام انتخابات میں بمشکل دوبرس باقی رہ گئے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ وزیراعظم اور انکے ساتھی لمبے سانس کھینچیں ‘ سر جوڑ کر بیٹھیں اوراس بات کا گہرائی سے جائزہ لیں کہ حکومت میں جو وقت گزر گیا انہوں نے کیا پایا اور کیا کھویا۔ وہ قوم کیلیے کیا مثبت کام کرسکے اور انکی ناکامیاں کیا ہیں؟اَب جومدت بچی ہے اس میں وہ عملی طور پر کیا کرسکتے ہیں؟ لوگوں کے بڑے مسائل کیا ہیں اور انہیں حل کرنے کیلیے کون سے عملی اقدامات بقیہ چوبیس مہینوں میں کیے جاسکتے ہیں؟ کئی دہائیوں کے بعد کم و بیش ملک کے چاروں صوبوں میں پاکستانی عوام نے تحریک انصاف اور عمران خان کی صورت میں ایک نئے متبادل سیاسی پلیٹ فارم کا انتخاب کیا تھا ۔ وزیراعظم سے ملک کے ایک بہت بڑے طبقہ نے بلند توقعات وابستہ کی ہوئی ہیں ۔ اگر وہ اپنے حامیوں کو کسی قدر مطمئن نہ کرسکے تو قومی سیاست میں مایوسی کی فضا چھا جائے گی ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کی اسّی فیصد غریب اور سفید پوش آبادی مہنگائی سے پریشان ہے۔ کھانے پینے اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں تین برسوں میں پچاس سے سو فیصد اور چند صورتوں میں ڈیڑھ دو سو فیصد بڑھ گئی ہیں۔ ایک مزدور اور بہت کم تنخواہ پر کام کرنے والے نچلے ملازم کے گھر کے خرچ میں کم سے کم چھ ‘ سات ہزار روپے ماہانہ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ جبکہ اسکی آمدن میں اتنا اضافہ نہیں ہوا۔ خوشحال متوسط طبقہ اور دولت مندوں کیلیے یہ رقم ہاتھ کی مَیل ہے۔ لیکن غریب آدمی کیلیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ غریب خاندانوں کیلیے دو وقت کی دال روٹی کھانا دُوبھر ہوچکا ہے۔ اُوپر سے بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ اور پیٹرول کی قیمتوں نے انکے کڑاکے نکال دیے ہیں۔ انتظامی اقدامات سے مہنگائی کم نہیں کی جاسکتی۔صرف اُنیس بیس کا فرق لایا جاسکتا ہے۔ جب تھوک میں کوئی چیز مہنگی ہوجائے تو دُکاندارسستی کیسے بیچ سکتا ہے؟ یوں بھی انتظامیہ کا کنٹرول بہت کمزور ہوچکا ہے۔ فوری طور پر اس میں بہتری لانا ممکن نہیں۔ مہنگائی سے کُچلی ہوئی عوام کو ریلیف دینے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ انکی آمدن میں اضافہ کیا جائے۔ وزیرخزانہ شوکت ترین نے کھانے پینے کی چیزوں پر کیش سب سڈی کا عندیہ دیا ہے ۔ اللہ کرے وہ اس پروگرام پر جلد سے جلد عمل درآمد شروع کروادیں۔ جُوں جُوں اس میں تاخیر ہوگی ‘سماجی بے چینی بڑھتی جائے گی۔ باقی تمام سرکاری کاموں میں قدرے تاخیرکی جاسکتی ہے لیکن مہنگائی ایسا بڑا‘ ہنگامی ایشو بن چکا ہے جس سے نپٹنے کیلیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ویر اعظم عمران خان کی بدقسمتی ہے کہ انہیں پہلی بار حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن اِس دوران میں کورونا کی صورت میں ایک خطرناک وبا نازل ہوگئی۔ڈیڑھ سال ہوگیا حکومت کی بیشتر توانائیاں اور مالی وسائل اس وبا کو کنٹرول کرنے میں صرف ہورہے ہیں۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ افغانستان کی صورتحال نے پوری کر دی۔ امریکہ کے انخلا اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک نے افغانستان پر معاشی پابندیاں لگادی ہیں۔ اس سے پاکستان کی معیشت پر بوجھ آن پڑا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی کامیابیوں کی پاکستان کے عوام کو بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔ افغانستان کے پاس زرِمبادلہ نہیں ہے۔امریکہ نے اسکے ڈالرز منجمد کردیے ہیں۔افغانستان کے تاجر اور کاروباری حضرات اپنے کاروبار کیلیے پاکستان کی منڈی سے ڈالر خرید رہے ہیں۔ ڈالرروز بروز مہنگا ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں ڈالر کی روپے کی مقابلہ میں قیمت اُنیس بیس روپے بڑھ گئی ہے۔ پاکستانی معیشت دباؤ میں ہے۔ ملک میں ہر درآمدی چیز مہنگی ہوچکی۔ خاص طور سے کھانے کا تیل ‘دالیں‘ پیٹرول جو ہم بیرون ملک سے منگواتے ہیں۔روپے کی قدر میں مسلسل کمی وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے پاوں تلے سے زمین کھسکا رہی ہے۔اگر انہیں اپنی سیاسی بقا عزیز ہے توروپے کی قدر کو ایک سطح پر مستحکم کرنا ہوگا۔ روپیہ جتنا نیچے گرتا جائے گا ‘ حکومت کی مقبولیت اتنی کم ہوتی جائے گی کیونکہ اسکا براہِ راست تعلق اشیا ئے ضروت کی مہنگائی سے ہے۔روپیہ کی قدر کو بریک لگانا ایک بڑامسئلہ بن چکا ہے جسے نظر انداز کرنا سیاسی خود کشی کے مترداف ہوگا۔ یہ درست ہے کہ عمران خان کو بہت ناموافق حالات میں حکومت کرنے کا موقع ملا۔انکو پارلیمان میں سادہ اکثریت حاصل نہیں۔کئی پارٹیوں سے سمجھوتوں کے بعد مخلوط حکومت بنانا پڑی۔ اُنہیں ایک دیوالیہ معیشت‘ کورونا وبا اور افغانستان کی غیرمستحکم صورتحال کا سامنا رہا۔ تحریک انصاف کہہ سکتی ہے کہ کورونا وبا کے باعث وہ زیادہ ترقیاتی کام نہیں کرواسکی۔ اب تک صحت اور تعلیم کی سہولیات بہتر نہیںکی گئیں۔پی ٹی آئی اپنے منشور کے مطابق زیادہ تعداد میں مکانات کی تعمیر نہیں کرسکی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں تبدیلی کی مخالف قوتیں بہت مضبوط ہیں ۔ انکی جڑیں بہت گہری ہیں۔ دولت مند طبقات ‘ کرپٹ سیاستدانوںاور بددیانت افسروں کا گٹھ جوڑ ہے۔نسلی‘ لسانی تعصب عام ہے۔ معاشرہ کا ایک حصہ بدعنوانی کو بُرا نہیں سمجھتا بلکہ اسے طرز زندگی کے طور پر قبول کرچکا ہے۔ سیاستدانوں پر کرپشن کے مقدمات چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھتے ہیں۔ ملکی معیشت دائمی امراض کا شکار ہے جو چند برسوں میںدرست نہیں کی جاسکتی۔ قومی پیداوار کی بنیاد بہت چھوٹی ہے۔ ملک دہائیوں سے بیرونی قرضوں کے سہارے چلتا آیا ہے۔دو تین سال میں معیشت کو پٹری پر لاناممکن نہیں۔ ریاستی ادارے کمزور ہوچکے ہیں۔ ریاست کی عملداری نحیف و نزار ہوگئی ہے۔ ان اداروں کی تشکیلِ نو وسیع سیاسی اِتفاق رائے اور مضبوط حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ تاہم ایک اچھے لیڈر کی صلاحیتوں کا امتحان مشکلات میں ہی ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے حامیو ں کو وزیراعظم عمران خان کے خلوص ‘ نیّت اور دیانتداری پر شک نہیں ہے۔ انہوں نے حکومت سنبھال کر اپنے اختیارات کا فائدہ اٹھا کر دولت جمع نہیںکی ۔البتہ تاثریہ ہے کہ وزیراعظم کی ٹیم میں کام کرنے کی صلاحیت کم ہے۔ انکے بہت سے ساتھی میڈیا میں اچھا بیانیہ دے سکتے ہیں لیکن مختلف کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اورکچھ نہیں تو اسلام آباد ہی کو ماڈل سٹی بنانے کا کام شروع کردیتے۔صرف اس شہر میں صحت و تعلیم کی اچھی سہولتیں فراہم کردیتے۔ کراچی میں گرین لائن منصوبہ کا انفراسٹرکچر تین سال پہلے تیار ہوگیا تھا۔ باقی تھوڑا سا کام چھ ماہ ‘ ایک سال میںمکمل کروایا جاسکتا تھا لیکن اس میں چھتیس مہینے لگادیے۔بہاولپور میںجنوبی پنجاب کے سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد ابھی تک نہیں رکھا جاسکا۔آج تک بلدیاتی اداروںکے الیکشن نہیں کروائے گئے۔ انصاف کی فراہمی کا نظام بہتر بنانے کیلیے لمبی چوڑی رقم درکار نہیں۔ لیکن حکومت اس ناکارہ نظام میں کوئی تبدیلی متعارف کروانے سے قاصر ہے۔ بعض اوقات لگتا ہے کہ حکومت جمود کا شکار ہے۔ اگر تحریک انصاف کو اگلے الیکشن میں اپنی پوزیشن بہتر بنانی ہے یا کم سے کم موجودہ سطح پر اسے قائم رکھنا ہے تو جمود کو توڑنا ہوگا۔