کبھی کبھی گماں ہوتا ہے، ملک کے حالات ٹھیک ہو رہے ہیں۔ خاص طور اقتصادیات کے میدان میں چند اشارے بتاتے ہیں کہ ہم بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ یہ جو ریٹنگ کے عالمی ادارے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ پاکستان کی حقیقت اب منفی سے مستحکم ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ تین سو روپے کلو ٹماٹر خریدنے والا عام پاکستانی یہ سوال اہل علم سے پوچھتا ہے بتائو کیا فرق آیا ہے۔ پہلے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ ان اصطلاحوں کا درست مفہوم معلوم نہ ہو تو آدمی غلط مطلب اخذ کر لیتا ہے۔ جیسے آپ دین کا علم نہ جانتے ہوں تو صحیح،مسلسل، حسن، ضعیف احادیث وغیرہ کو اس کے درست تناظر میں نہ سمجھ سکیں گے اور غلطی کھاتے جائیں گے۔ یہ ریٹنگ بھی کچھ اس طرح کی ہیں۔ میں بار بار ایک بات کہتا ہوں کہ 16ئکے آخر میں جب یہ پاناما کا پھڈا شروع ہوا، آپ اس ریٹنگ کو دیکھ لیں۔ پھر اندازہ لگانے کی کوشش کریں اس عرصے میں ہم پر کیا بیتی ہے۔ یہ ریٹنگ CBABہو تو گزارا ہے۔ یہ 3`2`1ہوتی ہے۔ پھر اسے منفی، مثبت، مستحکم بتایا جاتا ہے عجیب گورکھ دھندہ ہے۔ معیشت کے مستحکم ہونے کا مطلب وہی ہے جو ہماری حکومت کی طرف سے بار بار کیا جاتا ہے کہ معیشت کو استحکام آ رہا ہے۔ بھئی بے روزگاری بڑھ رہی ہے، غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، تم کہتے ہو کہ جانے والوں نے معیشت تباہ کر دی تھی، ہم اسے استحکام بخش رہے تھے۔ صرف ایک فقرہ سن لیجیے، یہ استحکام کتنا عرصہ چلے گا۔ ذرا معلوم تو کر لیجیے۔ اس استحکام کا مطلب کیا ہے۔ امپورٹ ہم نے کی نہیں، ایکسپورٹ ہماری بڑھی نہیں۔ اگر بڑھی نہیں تو ہم نے زیادہ مال دے کر کم ڈالر کمائے، کیونکہ اپناسکہ سستا کر دیا تھا۔ اس سے پتا چلا کہ بجٹ خسارہ کم ہو گیا۔ ہم پھولے نہیں سما رہے۔ ہم کوئی کام نہیں کریں گے، کچھ پیدا نہیں کریں گے۔ کوئی خرچ نہیں ہو گا، تو اس کا نام خسارہ کم کرنا ہے؟ استحکام اور شے ہے اور ترقی کا مطلب دوسرا ہے۔ ہماری ترقی اس وقت حکمتاً 2.4فیصد ہے۔ ہم اگر کارخانے نہیں چلا رہے، انرجی کم خرچ کر رہے ہیں، خام مال کم منگوا رہے ہیں تو اس سے جو خسارہ کم ہو رہا ہے اس نے معیشت پر بریک لگا رکھی ہے۔ اس بریک کو ہم استحکام کہہ رہے ہیں۔ یہ پہلا سال ہے کہ ہم گندم کم پیدا کریں گے، ہم نے کپاس کی فصل کا کباڑہ کر دیا ہے۔ یہ ہمیشہ سوا سے ڈیڑھ کروڑ گانٹھ ہوتی تھی، اس بار سنا ہے 70لاکھ گانٹھ رہ جائے گی۔ چاول کی قیمت انٹرنیشنل مارکیٹ میں بہتر ہے۔ مگر ہم نے پیداوار یہاں بھی کم کی ہے۔ مینوفیکچرنگ میں تو ہم منفی جا رہے ہیں۔ صنعتی پیداوار کم ہو رہی ہے اور کہہ رہے ہیں معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ اس بار ٹیکس اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ ظاہر ہے گزشتہ سال سے زیادہ ہے۔ گزشتہ سال ہم نے کوئی 4ہزار ارب سے کچھ کم اکٹھا کرنے تھے۔ اس سال ساڑھے5ہزار ارب ہیں۔ گویا پہلے 3ماہ میں ہم نے ہدف کے مطابق گزشتہ سال سے زیادہ اکٹھا کرنے تھے۔ ہم وہ ٹارگٹ تو پورا نہیں کر رہے ہیں یہ کہہ رہے ہیں، گزشتہ سال سے زیادہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ ہماری زرعی، صنعتی ترقی ہر لحاظ سے کم اور امپورٹ کی ضرورت ہی نہیں، ہمیں باہر سے کیا منگوانا ہے۔ کچھ تیار کرنا ہو تو خام مال چاہیے۔ نیا کارخانہ لگانا ہو تو پیسہ چاہیے۔ ہم نے تو اپنی ساری ضرورتیں ہی ختم کر دی ہیں۔ وہ ضرورتیں جو ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ معیشت مستحکم ہو گئی۔ کس قیمت پر ترقی کی رفتار کو روک کر ہم نے تو سی پیک کو بند کیے رکھا۔ یہ وہ قیمت ہے جو معیشت کے ’’استحکام‘‘ کے لیے دے رہے ہیں۔ ایسے استحکام کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا۔ ہم ٹھٹھک کر رہ گئے ہیں۔ سکڑے کھڑے ہیں اور اکڑ اکڑ کر کہہ رہے ہیں، ہم مستحکم ہو رہے ہیں۔ میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ 16ء کے مالی بحران پیدا ہونے سے پہلے ہم اقتصادی اشاریے اس سے بہتر تھے۔ ہماری ریٹنگ بی ہی تھی مگر شاید بی1تھی، مثبت تھی۔ سٹاک ایکسچینج بہتر ہو رہا ہے، مگر اس وقت کہیں بہتر تھا۔ اب ہم 40ہزار کی حد پار کر رہے ہیں تو اچھل رہے ہیں، اس وقت 55ہزار تک جا پہنچا تھا۔ شرح سود اور ڈالر کی قیمت کا تو ذکر تک نہ کیجیے۔ ایک منٹ کے لیے تصور کر لیجیے کہ یہ سب اتنی تھی۔ اس وقت ہم کہہ رہے ہیں سرمایہ دار آنے کو تلا بیٹھا ہے۔ اس وقت ایسا ہی ہو رہا تھا۔ اس سے کہیں بہتر ہو رہا تھا۔ ایک بار پھر فرض کر لیجیے کہ سب اشاریے ویسے ہی تھے جیسے آج ہیں۔ تو یہاں تک آنے میں ہمیں کتنا زور لگانا پڑ رہا ہے۔ پھر بھی ہم وہاں ہیں جہاں تین سال پہلے تھے؛ اگرچہ وہاں بھی نہیں ہیںؒ۔ ہم تین سال پیچھے رہ گئے ہیں، بلکہ پانچ سال یہ جو اعلانات ہم اب کر رہے ہیں۔ ہم نے اگر معیشت کا ناس نہ مارا ہوتا تو اس وقت 3سال آگے ہوتے بلکہ تین سال بعد 5سال آگے ہوتے۔ یہ لمبا چوڑا حساب کتاب نہیں ہے، ہم پیچھے رہ گئے ہیں، کم از کم پانچ سال پیچھے رہ گئے ہیں اور اعلان کر رہے ہیں معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ پہلے والے خراب چھوڑ گئے تھے۔ ترقی کرتی معیشت کو ہم نے خسارے میں ڈالا اور پھولے نہیں سما رہے کہ ہم نے معیشت کو مستحکم کر دیا۔ مطلب یہ کہ ہم نے معیشت کو طوفانوں میں لنگر انداز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تو صرف معیشت کا حال ہے۔ دوسرے میدانوں میں بھی حالات ایسے میں کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسے آپ قومی حب الوطنی کہیے، حزب اختلاف کی احتیاط کیجیے ہم نے آرمی چیف کے معاملے کو جس طرح عدالتوں میں بگاڑا ہے، اس کی بھی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی۔تعین تو یہ کیا جاتا ہے کہ اس مسئلے کو سب ادارے اور ملک کے با شعور عناصر مل کر طے کر لیں گے، کہ نہ اتنی بڑی خرابی پیدا کر دی گئی ہے کہ نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہر کل ٹیڑھی۔ الیکشن کمشن تقریباً معطل کر دیا گیا ہے چند گھنٹوں میں دھڑا دھڑا ایکٹ پاس کر کے اپنی جمہوریت پسندی کا ثبوت دیا۔ بار بار اعلان کیا کہ صرف آرمی بل ہی میں تو ترمیم کرنا ہیں، وہ ہم چٹکی بجاتے ہی کر لیں گے۔ ٹڈی دل دو دن کے لیے ملک میں آتا تھا تو قیامت آ جاتی ہے اور یہاں یہ حال ہے کہ ہر روز خبر آتی ہے کہ فلاں جگہ ڈیرے ڈالے پڑا ہے اور ہم یہ بحث کر رہے ہیں کہ یہ وفاق کے سنبھالنے کا مسئلہ ہے یا صوبے کا۔ کبھی کہتے ہیں یہ کھانے پینے نہیں آیا، صرف انڈے بچے دینے آیا ہے۔ گویا ان دنوں کھائے پئیے گا کچھ نہیں، فصلیں محفوظ ہیں۔ ہاں، انڈے دے گا تو اگلے سال دیکھ لیں گے۔ ہر روز ایک نیا مسئلہ پیدا ہوتا ہے ہم ٹال جاتے ہیں۔ کتے کاٹنے سے اموات ہو رہی ہیں۔ کسی نے پتا چلایا ہمارے ہاں کتے کاٹے کی ویکسئین کیوں نہیں ہے۔ ویکسئین بنانے کا ایک قومی ادارہ موجود ہے۔ دس سال پہلے تو غالباً وہ ویکسئین بنا رہا تھا۔ اب تک اسے ریسرچ کر کے بہت ترقی کر لینا چاہئے تھی۔ پھر کیا ہوا۔ سماجی طور پر ہم بڑی ترقی کر چکے ہیں۔ اب شاید کتوں کی پناہ گاہیں اور دستر خوان بنانے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہمیں خبر ملی ہے کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں۔ معیشت کو بھی دستر خوانوں اور پناہ گاہوں پر لگا رکھا ہے۔ آج ایشیائی بینک پیسہ دے گا، کل کوئی اور ادارہ بجٹ میں ہماری مدد کرے گا لیکن ترقی ہمیں نہیں کرنے دی جائے گی۔ ہمیں منع کر دیا گیا ہے کہ ہم ایسے کوئی منصوبے بنائیں جن سے ترقی ہو۔ اس سے زیادہ شرم کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ اب جب دوبارہ سی پیک کی طرف جا رہے ہیں تو چین والے ہمارے افسروں، وزیروں اور مشیروں پر اعتراض کر رہے ہیں۔ چین والے کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے۔ وہ جانتے ہیں کہ کون کام کرتا ہے اور کون باتیں ہی نہیں کرتا، کام بھی دکھاتا ہے۔ خوش ہونے کی بات نہیں، ابھی کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔