پاکستان میں ٹرائیکا پلس کانفرنس ہر لحاظ سے ایک کامیاب کانفرنس تھی۔نہ صرف یہ کہ دنیا کی تین بڑی طاقتیں امریکہ‘ روس اور چین اس میں شریک تھیں بلکہ افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ نے بھی اس میں شرکت کی۔اس کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ بھی پاکستان کے دیرینہ موقف کی تائید کرتا ہے کہ عالمی برادری افغانستان کو امداد کی فراہمی کے لئے ٹھوس اقدامات کرے اور طالبان افغان عوام کے ساتھ مل کر پوری قوم کی نمائندہ حکومت بنانے کے لئے اقدامات کریں۔کانفرنس کے شرکاء نے سنگین معاشی اور انسانی بحران سے بچنے کے لئے اقدامات کرنے پر بھی زور دیا۔اگر اس کانفرنس کا موازنہ بھارت میں ہونے والی افغانستان کانفرنس سے کیا جائے تو زمین آسماں کا فرق دکھائی دیتا ہے۔بھارت میں ہونے والی اس کانفرنس میں نہ افغانستان کا وفد شامل تھا نہ پاکستان نہ چین اور نہ بھارت کا قریبی اتحادی امریکہ۔روس اور ایران اس کانفرس میں شامل تھے اور اس کی وجوہات سیاسی سے زیادہ معاشی ہیں کہ ان دونوں ممالک کا بھارت سے معاشی مفاد وابستہ ہے۔ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ مشترکہ اعلامیہ کے علاوہ روس نے اپنا الگ بیان جاری کیا جو بھارتی بیان سے کافی مختلف ہے۔روس نے افغانستان کے دہشت گردی کی آماجگاہ بننے کے خدشے کا اظہار نہیں کیا۔بھارت عام طور پر اس کوشش میں رہتا ہے کہ دہشت گردی کا ذکر کر کے کسی نہ کسی طرح اس کا تعلق پاکستان سے جوڑ دے۔حالانکہ بھارت جو دہشت گردی مقبوضہ کشمیر میں کر رہا ہے وہ ساری دنیا کے سامنے عیاں ہے۔ہندو توا کے نئے تصور نے اس دہشت گردی کا دائرہ پورے بھارت میں پھیلا دیا ہے اور کروڑوں نفوس پر مشتمل غیر ہندو آبادی کو نت نئے طریقوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔خود بھارت کے سنجیدہ حلقے اس پر پریشان ہیں اور بھارت کے مستقبل کے بارے میں فکر مند۔بھارت کے سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے اپنی تازہ تصنیف‘سن رائز اوور ایودھیا‘ میں ہندو توا کی تحریک کو داعش اور بوکوحرام جیسی تنظیم قرار دیا ہے۔اس کتاب کی اشاعت کے فوری بعد انتہا پسند ہندو سلمان خورشید کے خلاف مقدمات درج کروا رہے ہیں اور انہیں بھارت کا دشمن قرار دے رہے ہیں۔سلمان خورشید کو جسمانی طور پر اگر کوئی نقصان پہنچایا گیا تو اس کی ذمہ داری انہی انتہا پسند ہندوئوں پر ہو گی۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی بڑی حد تک کامیاب اور معتدل ہے۔۔اگرچہ وزیر اعظم کے لئے ایک احتیاط لازم کہ وہ بڑی طاقتوں کو علی الاعلان للکارنے سے گریز کریں کیونکہ معاشی طور پر ہم انہی طاقتوں کے دست نگر ہیں۔ہماری ایکسپورٹ کی سب سے بڑی منڈی امریکہ اور یورپ ہی ہے۔اس وقت جس طرح آئی ایم ایف اور فیٹف پاکستان کی مشکیں کسنے میں مصروف ہے اس کا ماخذبھی امریکہ اور یورپ ہے۔اس لئے امریکہ اور یورپ کے بارے میں غیر ضروری شدت پسندی ہمارے مفاد میں ہرگز نہیں ہے۔ اندرونی طور پر ہماری حکومت گوناگوں مشکلات کا شکار ہے اور پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے اور عمران خان کے ہمدرد بھی اس مشکل کا شکار ہیں کہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں حکومت کے کس کارنامے پر فخر کریں۔انصاف اور احتساب ہی پی ٹی آئی کے بڑے اہداف تھے۔اس عرصے میں نہ تو کسی کا احتساب ہو سکا ہے اور نہ ہی عام آدمی کے لئے انصاف کا حصول آسان بنایا جا سکا ہے۔اپنے دور اقتدار کا تقریباً تین چوتھائی عرصہ گزر جانے کے بعد نہ بیورو کریسی‘ نہ پولیس اور نہ تاجر طبقہ حکومت کا معاون اور مددگار نظر آتا ہے۔نہ ہی حکومت کی کوئی سنجیدہ کوشش دیکھنے میں آئی ہے کہ وہ بیورو کریسی اور پولیس کا اعتماد حاصل کرنا چاہتی ہے۔حکومت نے ہر مسئلے کا حل اسی کو سمجھ رکھا ہے کہ انتظامیہ کو ہر دو تین ماہ کے بعد ٹرانسفر آرڈر تھما دیا جائے۔اس کے نتیجے میں پنجاب میں تقریباً نصف درجن آئی جی اور چیف سیکرٹری آزمائے جا چکے ہیں اور ہر مرتبہ نتیجہ وہی نکلا ہے جو اس طرز حکومت کا نکلنا چاہیے۔کوئی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔اگلے دن وزیر اعظم نے فرمایا کہ اگر ایک ضلع میں ایک بہترین ڈی پی او لگا دیا جائے تو اس ضلع کے تمام مسائل حل ہو جائیں۔معلوم نہیں وزیر اعظم کس سے اس خواہش کا اظہار کر دیتے ہیں کہ وہ بہترین ڈی پی او لگائے کیونکہ حکومت تو ملک میں خود ان کی ہے لیکن ان کا طرز تخاطب ایسا ہے کہ جیسے وہ اپوزیشن کے لیڈر ہیں اور وہ حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اچھے افسر تعینات کئے جائیں۔جہاں تک افسروں کا تعلق ہے انہیں یہ یقین ہو چکا ہے کہ یہ حکومت ان کی پشتی بانی نہیں کرے گی اور انہیں جو کرنا ہے وہ اپنے رسک پر کرنا ہے۔انہیں یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ وہ کچھ کریں یا نہ کریں تین چار ماہ میں ان کا پوسٹنگ آرڈر تیار ہو گا۔ایسے حالات میں وہ کون بے وقوف ہو گا جو اپنی جان جوکھوں میں ڈالے اور وائٹ کالر کرائم کرنے والوں پر ہاتھ ڈالے۔اس لئے افسر بھی وقت گزاری سے کام لیتے ہیں اور اپنا سارا وقت اپنے ذاتی تعلقات بہتر بنانے میں صرف کرتے ہیں تاکہ کم از کم آئندہ آنے والی حکومت کی نظر میں بااصول افسر تصور کئے جائیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اداروں کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر بھی ہمیشہ زور دیا تھا لیکن شاید ہی کوئی ادارہ ہو جو اس حکومت کے رویے پر شاکی نہ ہو۔مثال کے طور پر الیکشن کمشن سے حکومت کی کشا کش روز روشن کی طرح عیاں ہے حالانکہ موجودہ الیکشن کمشنر اس حکومت کا حسن انتخاب ہے حکومت کے وزراء جس زبان میں الیکشن کمیشن کا ذکر کرتے ہیں وہ کسی بھی ادارے کے لئے باعث اطمینان نہیں ہو سکتا۔وزیر اعظم ان وزراء کی سرزنش کرنے کی بجائے پوری قوت کے ساتھ ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے۔انہوں نے اپنی آزادی کو خود یقینی بنایا ہے۔اس کا کریڈٹ حکومت کو نہیں دیا جا سکتا۔بلکہ حکومت کسی حد تک عدلیہ سے خوفزدہ ہے۔حکومت یہ جرأت بھی نہیں کر سکی کہ جناب چیف جسٹس کو درخواست کرے اور ان کے ساتھ مل کر ملک میں نظام عدل کی بہتری کی کوشش کرے۔نظام عدل ہی کسی ملک کے باقی نظام کی بنیاد ہوتا ہے۔اس وقت ہمارے پاس ایک حوصلہ مند اور قابل چیف جسٹس موجود ہیں۔حکومت کیوں کوشش نہیں کرتی کہ ان کے تعاون سے پاکستان کے نظام عدل میں بنیادی تبدیلیاں لائے تاکہ باقی ممالک کے مقابلے میں ہم بھی فخر کر سکیں کہ ہمارے ملک میں عام آدمی کو انصاف مہیا ہے۔ اس حکومت کو فوج کا تعاون قابل رشک حد تک میسر رہا ہے لیکن ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کو جس بھونڈے طریقے سے ہینڈل کیا گیا اس سے غیر ضروری طور پر شکوک و شبہات نے جنم لیا جو کسی طرح بھی حکومت کے لئے سودمند نہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم اپنے اردگرد غور کریں اور معلوم کریں کہ مسئلہ کہاں ہے۔ان کے کون سے مشیر انہیں اداروں سے محاذ آرائی کا مشورہ دیتے ہیں اور ان کی انا کو تسکین پہنچاتے ہیں۔وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔وزیر اعظم کو بہت سا کام کرنا ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔