ایران نے دمشق میں اپنے سفارتخانے پر حملے کے جواب میں ہفتیکو رات گئے اسرائیل پر تین سو سے زائد میزائل اور خودکش ڈرونز کا حملہ کیا ہے۔اس حملے میں اسرائیل کا کوئی بڑا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا تاہم اس واقعہ نے پوری دنیا میں سنسنی پھیلا دی ہے۔ اسرائیلی کا کہنا ہے کہ اس کی حدود میں پہنچنے سے قبل ہی بیشتر میزائلوں اور ڈرونز کو ’ایرو‘ نامی فضائی دفاعی نظام اور خطے میں موجود اتحادیوں کی مدد سے ناکام بنا دیا ہے۔حملے کے بعدایران نے اسرائیل کو انتباہ کیا ہے کہ اسرائیل ایرانی حملے کا جواب دینے کی کوشش نہ کرے اور اگر ایسا ہوا تو وہ بڑی کارروائی کرے گا۔ایرانی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف میجر جنرل محمد باقری نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ اگر اسرائیل جوابی کارروائی کرتا ہے تو ایران کا ردعمل رات کی بمباری سے ’کہیں بڑا‘ ہوگا۔ایران نے امریکہ کو بھی خبردار کیا کہ اسرائیلی جوابی کارروائی کی حمایت امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کا باعث بنے گی۔قبل ازیں اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے کہا ہے کہ ایران نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق استعمال کیا ہے اور اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے ’ایک اور غلطی کی‘ تو اس کے سنگین نتائج برآمدہوں گے۔ ایرانی حملے کے بعد مسلم دنیا کا رد عمل حسب توقع سہما ہوا اور محتاط دکھائی دیا جبکہ اسرائیل کے اتحادی ممالک نے کھل کر اپنا موقف پیش کیا ۔روس اورچین نے اسرائیل اور ایران کے تازہ ترین تنازعے پر ردعمل دیتے ہوئے ’تحمل‘ کا مشورہ دیا ہے۔ ایک بیان میں چین نے کہا کہ اسے موجودہ کشیدگی پر گہری تشویش ہے۔ چین نے مزید کہا کہ اس نے متعلقہ فریقوں سے کشیدگی میں مزید اضافے سے بچنے کے لیے پرامن رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔چین کے ایران کے ساتھ قریبی سفارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں، جبکہ امریکہ نے گذشتہ ہفتے چین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایران پر زور دے کہ وہ اسرائیل پر جوابی حملہ نہ کرے۔ اسرائیل پر ایرانی حملے کے بعد عالمی طاقتوں کا رد عمل طاقت کے توازن سے متعلق حقائق پیش کرتا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے اسرائیل پر کیے گئے بڑے پیمانے پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے دونوں ملکوںسے فوری طور پر تصادم بند کرنے کی اپیل کی۔سیکرٹری جنرل نے کہا کہ" میں تمام فریقوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں تاکہ کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کیا جائے جو مشرق وسطیٰ میں متعدد محاذوں پر بڑے فوجی تصادم کا باعث بن سکے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے حملے کے بعد کہا کہ " ایران اور اس کی پراکسیوں سے لاحق خطرات کے خلاف اسرائیل کی سلامتی کے لیے ہماری حمایت مضبوط ہے۔"تاہم انہوں نے ایران پر حملے کی خاطر اسرائیل کی حمایت نہیں کی۔شائد اس طرح امریکہ فلسطین میں اپنی انسان دشمن پالیسی پر نظر ثانی کا عندیہ دے رہا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سونککے مطابق برطانیہ اسرائیل کی سلامتی اور اردن اور عراق سمیت اپنے تمام علاقائی شراکت داروں کی سلامتی کے لیے پر عزم ہے ۔انہون نے کہا کہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر، ہم صورتحال کو مستحکم بنانے اور مزید کشیدگی کو روکنے کے لیے فوری طور پر کام کر رہے ہیں۔ کوئی بھی مزید خونریزی نہیں دیکھنا چاہتا۔"کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈونے اپنے رد عمل میں کہا کہ کینیڈا اسرائیل کے خلاف ایران کے ہوائی حملوں کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے۔ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کی حمایت کرنے کے بعد، ایرانی حکومت کے تازہ ترین اقدامات خطے کو مزید غیر مستحکم کر دیں گے اور دیرپا امن کو مزید مشکل بنا دیں گے۔ جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیربوک کا کہنا ہے کہ "ایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائل داغے ہیں۔ ہم جاری حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں، جس سے پورا خطہ افراتفری کا شکار ہو سکتا ہے۔یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے اپنے رد عمل میں کہا کہ"یورپی یونین اسرائیل کے خلاف ناقابل قبول ایرانی حملے کی شدید مذمت کرتی ہے۔ یہ علاقائی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔"ان ممالک کے رہنماوں کا رد عمل اس لئے اہم ہے کہ جدید دنیا کا انتظام یہی چلا رہے ہیں ،یہی وہ ممالک ہیں جنہوں نے ایران کے ساتھ ایٹمی ڈیل کی تھی۔اسرائیل مشرق وسطیٰ میں سنگین خطروں کو ہوا دے رہا ہے۔ایران نے جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ اپنا حق دفاع استعمال کیا جبکہ اسرائیل چند روز قبل نا سرف دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملے کا جرم کر چکا ہے بلکہ اس سے پہلے وہ کئی ایران مخالف کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔اقوام متحدہ اور مغربی طاقتیں اس وقت دوہرے معیارات سے کام لے رہی ہیں۔مسلم ممالک کی پسماندگی اور نا اتفاقی سے وہ اپنا اجتماعی ردعمل موثر انداز میں نہیں دے پائی۔اسلامو فوبیا اور غزہ جنگ کے معاملے پر یہ کمزوری بڑی نمایاں دکھائی دی۔پاکستان نے ایران کی حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن کیا خطے کے حالات اور داخلی صورتحال خود پاکستان کے لئے اطمینان بخش ہے ؟ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے۔عالمی طاقتوں کو شرم محسوس ہونی چاہئے کہ وہ جس معمولی حملے پر اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہی ہیں اس سے نصف سطح پر بھی پینتیس ہزارفلسطینیوں کو قتل کرنے پر اسرائیل کی مذمت نہیں کر سکیں۔