7اکتوبر 2023ء کو فلسطینی تنظیم حماس نے اسرائیل میں حملے کیے اور کم از کم 13سو اسرائیلیوں کو ہلاک کرکے ڈھائی سو کے قریب کو اغوا کیا۔ جس میں سے کچھ اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہوگئے ، کچھ کو آزاد کر دیا گیا، جبکہ ابھی بھی 130اسرائیلی شہری حماس کے قبضے میں ہیں۔ اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے فلسطین کے شہر غزہ کو تہس نہس کر دیا۔ 33ہزار فلسطینی بچوں، بڑوں اور بوڑھوں کو شہید کیا، اور لاکھوں افراد کو زخمی کیا۔ اور لبنان ہو، یمن ہو یا ایران ہو، جو ملک بھی اس لڑائی میں آیا اسرائیل نے اسے بھی سبق سکھانے کے لیے بیانات دیے اور ایک آدھ حملہ بھی کر دیا۔ جیسے لبنان میں ڈرون حملے کیے، حوثیوں پر میزائل گرائے، اور دمشق میں موجود ایرانی قونصل خانے پر یکم اپریل کو حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12افراد شہید ہوگئے تھے۔ اب یوں لگ رہا تھا کہ جیسے دنیا کے 57اسلامی ممالک کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں اور ایک بدمست ہاتھی سب کو روندتا جا رہا ہے۔ ایسے میں کسی ملک نے اسرائیل کو براہ راست دھمکی تو دور اسرائیلی اقدامات کی کھلے الفاظ میں مذمت بھی نہ کی۔ جبکہ ایران نے بھی خاصی سوچ بے چار کے بعد ’’بدلہ ‘‘ لینے کا اعلان کیا۔ اور محدود کارروائی کی۔ یعنی گزشتہ ہفتے کے روز اسرائیل پر تقریباً 300ڈرون اور کروز میزائل فائر کردیئے۔ جن میں سے اسرائیل کے مطابق 99فیصد فضاء میں ہی اُڑا دیے گئے، جبکہ ایک فیصد نے جزوی نقصان پہنچایا۔ عالمی میڈیا کے مطابق 90فیصد میزائل اور ڈرون تباہ کیے گئے اور ایرانی میڈیا کے مطابق ایران نے اسرائیل میں 50فیصد اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ ایران کی جانب سے یہ کارروائی اسکے پیشگی اعلانات کے عین مطابق تھی اور اسرائیلی حملے کا جواب دینے کا حق اسے یقیناً حاصل تھا۔ اب اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کوئی ایران کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے تو کوئی دھیمے لہجے میں Appreciate کر رہا ہے تو کوئی ایران پر ناکام ہونے کا الزام لگا رہا ہے۔ لیکن آگے چلنے سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ ایران کی یہ کارروائی دمشق میں ہونے والے اُس حملے کا جواب تھا جو اُس کے سفارتخانے میں ہو ناکہ فلسطین پر حملوں کے جواب میں تھا۔ لیکن ہمیں ایران کے اس اقدام کو سراہنا چاہیے کہ اُس نے دلیرانا قدم ایسے وقت میں اُٹھایا جب پوری ’’اُمت مسلمہ‘‘ سہمی بیٹھی اور پٹنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہے۔ اور ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ وہ انتظار ہی نہیں کر رہی بلکہ ان میں سے کئی ایک ممالک تو باقاعدہ اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں جن میں اردن نمبر ون پوزیشن پر ہے۔ سخت حیرانگی اُردن پر ہو رہی ہے، جس نے تمام عمر اسرائیل سے جوتیاں کھائی ہیں، اُس نے ایران کے میزائیلوں کو فضاء میں تباہ کرکے نہ جانے کون سا معرکہ سر کیا ہے؟ حالانکہ اسرائیل اور اردن کے درمیان 1948 سے 1994 تک جنگ لڑی گئی جس کے بعد 1994 میں جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی ایک امن معاہدہ ہوا۔ جس کے بعد ایران نے اردن کیخلاف بھی کارروائی کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اگر اردن کچھ اور نہیں کر سکتا، تو بہتر ہے کہ وہ کم از کم خا موش ہی رہے، لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے سے انہیں کیا حاصل ہوگا؟ ہو سکتا ہے کہ وہاں کے ڈکٹیٹر بادشاہوں کو وقتی فائدہ حاصل ہو جائے ، لیکن تاریخ میں اُنہیں کن الفاظ میں یاد رکھا جائے گا یہ بات شاید وہ نہیں جانتے! اور پھر سو باتوں کی ایک بات کہ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہم مسلمان ملک اتنے پیسے اسلحے پر کیوں خرچتے ہیں، خاموشی سے امریکا کی غلامی بالکل اُسی طرح کر لیں جس طرح جرمنی، تائیوان، جاپان، کینیڈا بلکہ پورے یورپ نے کی ہوئی ہے۔ میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ویسے تو کہنے کو تمام مسلم ممالک کے پاس کھربوں ڈالر کا اسلحہ موجود ہیاور ان کا سالانہ دفاعی بجٹ بھی اربوں ڈالر میں ہے جیسے ترکی کا دفاعی بجٹ 11ارب ڈالر ، سعودی ارب کا دفاعی بجٹ 80ارب ڈالر، انڈونیشیا کا 7ارب ڈالر، الجیریا کا 11ارب ڈالر، ملایشیا کا 5ارب ڈالر، مراکو کا 5ارب ڈالر، متحدہ ارب امارات کا 16ارب ڈالر، مصر کا تین ارب ڈالر اور وطن عزیز کا کم و بیش 7ارب ڈالر دفاعی بجٹ ہے،جبکہ اس کے علاوہ ضرورت پڑنے پر یا علاقائی توازن قائم رکھنے کے لیے بھی ہم مزید اسلحہ خرید لیتے ہیں۔ پھر یہی نہیں اس موقع پر تو اسلام کے تحفظ کے نام پر قائم ہونے والی دسیوں جماعتیں بھی بھیگی بلی بنی ہوئی ہیں، یعنی کوئی ہمیں بتائے کہ اسلام کی ’’سرپرست‘‘ جماعتیں اس موقع پر کہاں ہیں؟ یہ صرف مسلمانوں کو مارنے کے لیے ہیں؟ غیر مسلم جب ظلم کرتے ہیں تو یہ لوگ اُس وقت بدلا کیوں نہیں لیتے؟ لیکن جیسے ہی کسی مسلمان سے بدلا لینا ہوتو جناب! ایہ لوگ یسا ایسا جدید اسلحہ لے آتے ہیں کہ خدا کی پناہ … اورابھی تک افغانستان سے بھی ماسوائے زبانی جمع تفریق کے کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ غزہ پر جتنی تباہی ہوئی ہے، اُس پر سب سے زیادہ احتجاج اسلامی ممالک کے بجائے غیر مسلم ممالک میں ہوا ہے جس کی وجہ سے امریکا کواسرائیل کی اعلانیہ حمایت چھوڑ کر بیک فٹ پر جانا پڑا۔ بہرکیف ان سارے اقدامات کے بعد اگر آپ اسلامک عالمی تنظیم او آئی سی سے اُمیدیں رکھ رہے ہیں تو یہ یقینا آپ کی خوش فہمی ہے،،، کیوں کہ وہ ایک خاندان (اسلامی ممالک) کو اکٹھا کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس تنظیم کی جانب سے جتنے بھی فیصلے کیے گئے اُن کا معیار یہ تھا کہ اُس میں سے99فیصد آج بھی زیر التوا ہیں۔ اور پھر یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ پلیٹ فارم دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی اجتماعی آواز ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے مسائل کو اُجاگر کرنے، اُنہیں حل کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس تنظیم کے بڑے بڑے ممالک خود مختار ہونے کے بجائے مغربی قوتوں کی چھتر چھایہ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، ترکی، ملایشیا ، پاکستان اور انڈونیشیا وغیرہ جیسے امیر اور اسلحہ سے مالا مال ممالک بھی مغربی ممالک کی مرہون منت ہیں۔ معذرت کے ساتھ یہ تنظیم اسلام کے نام پر بنی لیکن اس میں موجود تمام اسلامی ممالک کے دوسرے ملکوں کے ساتھ مفادات جڑے ہیں اور یہ ممالک انہی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس تنظیم میں جڑے مسلم دنیا کے حکمران واضح اور شفاف فیصلہ کرتے تو شاید آج امریکہ کو یہ ہمت نہ ہوتی کہ وہ فلسطینیوں کی لاشوں پر لاشیں گرا رہا ہوتا اور دنیا کی یہ 56بہنیں تماشا دیکھ رہی ہوتیں۔ اور اگر اکیلا بھائی سینہ تان کر کھڑا ہوتا تو بجائے اُس کا ساتھ دینے کے یہ اُس کے حملہ کرنے کے انداز کا ہی تمسخر اُڑا رہی ہوتیں!