سرزمین فلسطین میں خونی المیے کی بنیادتب ہی رکھ دی گئی تھی جب تھیوڈور ہرزل نے یہودیوں کو مقدس سرزمین پہ بسانے کے لئے لابنگ شروع کی۔ اس کے ذہن میں دو خطے تھے جہاں خانماں برباد یہودیوں کو بسایا جاسکتا تھا۔ ایک ارجنٹینا دوسرے فلسطین۔ یہودی چونکہ فلسطین کو ارض موعود سمجھتے تھے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح فلسطین ان کے لئے مقدس سرزمین تھی اس لئے قرعہ فال اسی کے نام نکلا۔ ہرزل تھیوڈور کے یورپ میں مضبوط روابط تھے اس لئے وہ اس کوشش میں لگا رہا کہ کسی طرح سلطنت عثمانیہ پہ یورپ کا قرضہ ادا کردیا جائے یا معاف کروا دیا جائے۔اس سلسلے میں وہ جرمنی کے انتہائی مخیر اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے شخص بارن مورس ہرش سے ملا اور اسے اپنے منصوبے سے آگاہ کیا جس کے مطابق یہودیوں کو ساری دنیا سے اکھٹا کر کے فلسطین میں بسایا جانا تھا۔جب تھیوڈور ہرزل نے ارض موعود میں صیہونی ریاست کا منصوبہ مورس ہرش کے سامنے رکھا تو اسے بھی یہ دیوانے کی بڑ ہی محسوس ہوئی ۔ تاہم ، چونکہ یہودیوں کی خدائے لم یزل کے ساتھ بار بار عہد شکنی ، اپنے پیغمبروں کے قتل اور شرپسندی کی تاریخ سے وہ بھی آگاہ تھے اس لئے یہ خیال دل خوش کن تھا کہ یہودیوں کو یورپ سے نکال کر فلسطین میں خلافت عثمانیہ کے قلب میں خنجر کی مانند پیوست کر دیا جائے۔ یو ں تھیوڈور ہرزل کی اسرائیلی ریاست کے قیام کی ان کوششوں کا مثبت جواب ملا اور مورس ہرش نے ہرزل تھیوڈور کو کثیر سرمایہ فراہم کیا اور 1891ء میں صیہونی کالونائزیشن ایسو سی ایشن کی بنیاد رکھی گئی۔اس تنظیم کا مقصد مستقبل میں فلسطین کی تقسیم ، اسرائیل کے قیام اور وہاں ہجرت کرنے والے یہودی آبادکاروں کی مالی امداد تھا۔اس کے باوجود اسرائیل کے قیام میں دم توڑتی خلافت عثمانیہ سب سے بڑی رکاوٹ تھی جو بہرحال مسلمانوں کی مرکزی قوت تھی۔تھیوڈور ہزرل نے اپنا پلان بی مورس ہرش کے سامنے رکھا جس کے مطابق اسے یورپی قرضوں میں دبی خلافت عثمانیہ کے سلطان عبد الحمید ثانی سے بنفس نفیس ملاقات کرنی اور اسے اپنی پیشکش سے آگاہ کرنا تھا۔اس مقصد کے لئے اسے بااعتماد شخص کی ضرورت تھی جو سلطان کے قریب ہو اور اس کے سامنے تھیوڈور کی سفارش کرسکے۔اس کی نظر انتخاب آسٹریا ہنگری کے استنبول میں سفیر میکائل لیونسکی پہ پڑی جس کے ساتھ سلطان کے دوستانہ تعلقات تھے۔اس نے میکائل لیونسکی کو مشاورت کی غرض سے ویانا طلب کیا۔ انہیں سلطان کے مزاج کا اچھی طرح علم تھا کہ وہ مسلمانوں کی اس ریاست کے سیاسی معاملات میں کتنا حساس ہے اور اس سلسلے میں وہ کسی تعلق کا لحاظ کرنے والا نہیں ہے۔خاصے سوچ بچار کے بعد دونوں شیطانی دماغ ان نکات پہ متفق ہوگئے جن پہ سلطان عبدالحمید کو راضی کیا جاسکتا تھا۔ ایک تو یہ کہ وہ یورپی امرا اور تجار سے مل کر سرمایہ اکھٹا کریں اور سلطنت عثمانیہ کا قرض ادا کرنے کی پیشکش کریں دوسرے وہ آرمینیائی عیسائیوں کے خلاف جو سلطنت عثمانیہ کے لئے درد سر بنے ہوئے تھے ،اس کا ساتھ دیا جائے اور اس مسئلے کو حل کرنے میں سلطنت کی مدد کی جائے۔ برسبیل تذکرہ سلجوقی دور میں ان آرمینائی عیسائیوں کے ساتھ بڑا ظلم ہوا تھا اور وہ بلا د شام بالخصوص حلب ، حمص اور رقہ ہجرت کرگئے تھے۔اس سلسلے میں خلافت عثمانیہ پہ بین الاقوامی دبائو موجود تھا۔یہ وہی آرمینائی مسیحی ہیں جن کے قتل عام اور ہجرت بالجبر کا نوحہ اکثر معروف برطانوی تجزیہ کار رابرٹ فسک پڑھتے رہتے ہیں۔ شام کے یہی تین علاقے ہیں جہاں حال میں جاری خانہ جنگی میں آرمینائی مسیحی نوجوان داعش اور القاعدہ کے خلاف شامی فوج کے شانہ بشانہ لڑے اور انہیں واگزار کروایا۔ اس واگزاری کے بعد انہوں نے جشن بھی منایا اور اسے آرمینیا سے اپنی بے دخلی کا بدلہ قرار دیا حالانکہ ان کے مد مقابل ترکی نہیں تھا۔ بہرحال، ان نکات پہ متفق ہونے کے بعد میکائل لیونسکی نے سلطان عبدالحمید کے ساتھ تھیور ڈور ہرزل کی ملاقات کا بندو بست کیا۔مزاج آشنا میکائل لیونسکی نے تھیوڈور کو پہلے خود سلطان سے بات کرنے کی تجویز پیش کی وہ سلطان سے ملا اور اسے یورپ کے قرضوں کی ادائیگی اور سلطنت کو معاشی بوجھ اور بین الاقوامی دبائو سے نکالنے کی پیشکش کی اور بدلے میں فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کا منصوبہ پیش کیا۔اس نے جان بوجھ کر نظریاتی بنیاد پہ اسرائیل کے قیام کی بات نہیں کی۔دم توڑتی خلافت عثمانیہ کے لئے جو اندرونی اور بیرونی خلفشار کا شکار تھی یہ ایک بہترین پیشکش تھی جس سے سلطنت اور سلطان دونوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ سلطان عبد الحمید کا رد عمل لیکن حیران کن تھا۔تھیوڈور ہرزل اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ سلطان عبد الحمید نے میکائل لیونسکی سے کہا: تھیوڈو ر ہرزل کو خبردار کرو کہ وہ اس سلسلے میں ایک قدم آگے بڑھنے کی جرأت نہ کرے۔سرزمین فلسطین برائے فروخت نہیں ہے۔ میں اس کی ایک مٹھی بھر خاک بھی کسی کے حوالے نہیں کرو ں گا۔یہ امت مسلمہ کی میراث ہے جس نے اس کی خاک کو اپنے لہو سے سینچا ہے۔یہودیوں سے کہو اپنا پیشہ اپنے پاس رکھیں۔جس دن خلافت عثمانیہ ختم ہوگی اس دن یہ ایک پائی خرچ کئے بغیر اس پہ قابض ہوجائیں گے۔فی الحال میں زندہ ہوں اور ارض فلسطین کو فروخت کرنے سے بہتر سمجھوں گا کہ اپنی تلوار اپنے جسم میں اتار لوں۔تھیوڈور ہزرل کو اس جواب کی توقع نہ تھی۔ وہ ذلت کے ساتھ واپس لوٹ گیا لیکن یہ منصوبہ اس لیے تو نہیں بنایا گیا تھا کہ اس سے یوں دستبردار ہوا جائے۔صیہونیت کو میر جعفر دربار میں ہی مل گیا۔یہ علی نوری بے تھا۔ اس نے ہززل کو ایسی راہ سجھائی کہ خود وہ بھی حیران رہ گیا۔ اس نے کہا باسفورس کے راستے یلدیز پہ حملہ کردو۔سلطان کو گرفتار کرلو یا اسے فرار ہونے دو اور اس کی جگہ کسی کو بھی بٹھا دو۔ اس ساری مہم پہ کل خرچہ نصف ملین پاونڈ آئے گا۔یہ مہم جوئی تھیوڈور ہرزل کی بساط سے باہر کی چیز تھی۔وہ کچھ عرصہ زیر زمین چلا گیا اور نوجوان ترکوں کو سلطان کے خلاف بھڑکانے لگا۔ اس کی سازشیں رنگ لائیں اور 1909 ء میں ترک جوان انقلاب کے نتیجے میں سلطان عبد الحمید کو تخت سے دستبردار ہونا پڑا گو اس کے عوامل اور بھی تھے ۔ایک روشن باب ختم ہوا۔ 1917 ء میں برطانوی افواج جنرل ایلن بی کی سربراہی میں یروشلم میں داخل ہوگئیں۔مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا لیکن اب چراغ سحری کی لو میں تھرتھراہٹ باقی نہ رہی تھی۔ یروشلم پہ برطانیہ کا قبضہ ہوگیا اور جنرل ایلن بی جفہ کے راستے یروشلم میں فاتحانہ داخل ہوا۔ جب وہ یروشلم میں داخل ہوا تو اس نے ارض مقدس کے احترام میں جوتے اتار رکھے تھے۔ یہ انبیا کی سرزمین پہ مسلمانوں کا آخری اقتدار تھا۔ یہ صلیبیوں کی مسلمانوں پہ اتنی بڑی فتح تھی کہ خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی۔۔جنرل ایلن بی کی خوشی قابل فہم تھی۔ اس نے اعلان کیا کہ یروشلم کی فتح مسیحیوں کے لئے کرسمس کا تحفہ ہے۔ ایک امریکی اخبار نیویارک ہیرلڈ نے سرخی لگائی: بالآخر برطانیہ نے 673 برس بعد مسلمانوں سے یروشلم کو آزاد کروا لیا۔ 1229ء کے بعد جب مملوک نے بغیر جنگ کئے یروشلم فریڈرک کے حوالے کردیا تھا،اس کے بعد خوارزمیوں نے ایک بار پھر اس پہ قبضہ کرلیا اور کامل 673 برس اس مقدس شہر پہ حکمرانی کی۔ اخبار نے اسی طرف اشارہ کیا تھا۔اس کے بعد کی کہانی فلسطین کی تقسیم کی دردناک داستان ہے۔ اس میں معاہدہ بالفور ہے اور 14 مئی 1948ء کو مسلمانوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرکے ان پہ یہودی ریاست کو بسانے کا منصوبہ ہے۔ یہ وہ خون آلود دن تھا جب ساری دنیا سے یہودیوں نے ارض موعود کو ہجرت کی اور تقسیم شدہ فلسطین سے ان کے حقیقی وارثوں کو بے دخل کردیا۔ساڑھے سات لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے اور ہزاروں کا قتل عام ہوا۔ مسلمانوں کے لہو سے لتھڑے اس دن کو یوم نکبہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ فلسطینیوں کا نکبہ کبھی ختم ہی نہیں ہوا۔ وہ سلطان عبد الحمید اور خلافت عثمانیہ کے زوال سے ہی شروع ہوگیا تھا اور آج تک جاری ہے۔ جس دن برطانوی جنرل ایلن بی یروشلم میں ننگے پائوں داخل ہوا وہ سال تھا 1917ء اور تاریخ تھی 17 دسمبر۔اس تاریخ کے عین سو سال بعد امریکہ میں ایک شخص حیران کن طریقے سے برسراقتدار آیااوراس نے عین اسی تاریخ کو ٹھیک سو سال بعد متنازعہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کیا ۔صدر ٹرمپ کی صدارتی تقریب میں تاریخ میں پہلی بار ایک یہودی ربی نے تورات کی آیت تلاوت کی تھی: اے یروشلم جس دن میں تجھے بھول جائوں اس دن میرا داہنا ہاتھ کام کرنا چھوڑ دے۔وہ کچھ بھی نہیں بھولے اور ہم نے کچھ یاد نہیں رکھا۔سلطان عبدالحمید کو بھی نہیں جس نے کہا تھا کہ جس دن وہ نہ رہا،یہودی فلسطین پہ قابض ہوجائیں گے۔