کسی نے خوب کہا ہے کہ مغرب مغرب ہے اور مشرق مشرق۔ یہ دونوں، کبھی ایک نہیں ہو سکتے! یعنی مشرق کی چال ڈھال کا، معمول اور ہے مغرب کے ناز و رقص کا، اسکول اور ہے! یہ بات صحیح ہے کہ نت نئی ایجادیں اور نو بہ نو دریافتیں، فاصلے سکیڑتی جا رہی ہیں۔ چند ثانیوں میں، ایک علاقے کا مکین، سات سمندر پار کا نظارہ کر سکتا ہے۔ چلتی پھرتی تصویریں دیکھ سکتا ہے۔ لیکن ع کہاں تصویر میں نکلا، جو ارماں میرے دل میں تھا! بنفس ِنفیس، سات سمندر تو کیا، اکثر ہمسائے ملک میں پہنچنا، اَور مشکل بنا دیا گیا ہے۔ دس پابندیوں اور بیس مرحلوں کے عذاب سے گزرنا نہ پڑے تو انسان، دنوں میں ساری دنیا کو کھونچ کر رکھ دے! جدید دنیا کو، لاکھ گلوبل ویلج کہ لیجیے، دلوں کے درمیان فاصلے، کم نہیں ہوئے، شاید اَور بڑھ گئے ہیں۔ یہ فرق اور فاصلہ، کچھ تو تاریخ کا پیدا کردہ ہے، اور کچھ تہذیب و تمدن کا! مثلا، سترہویں صدی عیسوی تک، مغرب میں نسوانی حسن کا تصور، اچھا خاصا "ثقیل" تھا! اس زمانے کے مجسمے اور نقوش، آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اور پھر آج، کسی بھی غربی ملک میں، موم کی متحرک پْتلیوں کو دیکھ لیجیے! دوسری طرف، اردو کے شاعروں کو محبوب کی کمر نہیں ملتی تھی۔ اور دہن خوباں تو ع اس میں بھی جو دیکھیے، سخن ہے کی حد تک موہوم, بلکہ معدوم تھا! خود مشرق مشرق میں بھی تو فرق ہے۔ اردو ادب، بوٹا سے قد پر لوٹ رہا اور اہل ِفارس سرو قد اور شمشاد قدوں پر لہلوٹ! دیکھیے، فارسی کا شاہد ِرعنا، کتنی سہولت اور صفائی سے، پرے کے پرے، اڑا کر رکھ دیتا ہے! شاہ ِشمشاد قدان، خسرو ِشیرین دَہنان کہ بمڑگان شکند، قلب ِہمہ صف شکنان فارسی معشوق کا قد بت دیکھنے کو بالا بلند، عشوہ گر و سرو ِناز ِمن جیسے، بیسیوں مصرعے نکل آئیں گے! لیکن زمانہ بھی، ایک سا کہاں رہتا ہے وہی مغرب، جو دبیز و جسیم ہاڑ پسند کرتا تھا، غبغب کو، کراہت سے، دہری ٹھوڑی پکارتا ہے! مشرق، کم از کم شاعری کی حد تک، کل بھی وہیں اٹکا ہوا تھا اور آج بھی وہیں موجود ہے۔ یعنی سرمہ، آنکھوں میں جب لگائوتی ہو ایک دم، گیدی خر بنائوتی ہو! یہ قدریں جتنی بھی بدلی ہوں یا نہ بدلی ہوں۔ ایک قدر، دونوں میں مشترک ہو چلی ہے۔ دونوں ہی، آگے پیچھے، ستر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے، اپنے ہاتھوں لائی ہوئی، تباہی کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں! جو خوبی یا خامی، مغرب میں راہ پا جاتی ہے، مشرق بھی پورے شد و مد سے، اسے آمنا و صدقنا کہتا ہوا، اپنا لیتا ہے! ڈائنامائٹ سے لے کر فیس بک تک، کسی ایجاد میں، بذات ِخود، برائی نہیں تھی۔ مگر آدمی کی ازلی اور طبعی افتاد نے، ان کے شر انگیز پہلو کو زیادہ لیا اور خیرکو کم! مجھے خوب یاد ہے کہ آئی فون پہلے پہلے، جب نظر پڑا تو زبان سے، بے ساختہ نکلا تھا کہ دنیا بھر کے علوم و فنون، اب ہاتھ میں سمٹ آئے ہیں! مگر دیکھ لیجیے کہ جدید ٹیکنالوجی سے، فیض یاب ہونے والے کتنے ہیں، اور اس سے برباد ہونے والے کتنے ؟ اگر آپ پہلے سن نہیں چکے، تو جگر تھام کے، یہ خبر سنیے کہ یہاں امریکہ میں، ڈائونلوڈ ایبل اسلحہ دستیاب ہو چکا۔ یعنی آتشی اسلحہ کا ڈیزائن، گھر بیٹھے تیار کیجیے اور پھر، ہاتھ کے ہاتھ، اسے کسی تھری ڈی پرنٹر سے ڈھلوا بھی لیجیے۔ یہ ایسی شے ہے کہ ، اسلحے سے دلچسپی نہ رکھنے والا بھی، ادبدا کر، ایک دفعہ تو ضرور ہی اسے دیکھنا چاہے گا۔ خدا نخواستہ، یہ راستہ روکا نہ گیا، تو کتنی تباہی ہو گی، اس کا اندازہ کیسے لگایا جائے امریکہ میں، آتشی اسلحے کا حصول، کتنا سہل ہے، وہ بھی سن لیجیے۔ ڈرائونگ لائسنس جیسی عام اور ضرورت کی چیز، بنوانے کے لیے، کئی طرح کے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ مگر بندوقیں خریدنے کے لیے، کسی لائسنس کی ضرورت نہیں ہے۔ خصوصاً، جب یہ معاملہ، دو نجی فریق کے مابین ہو۔ یعنی آپ بندوق خریدنا چاہتے ہیں، اور فلاں صاحب بیچنا، تو اس معاملت کا اندراج، کہیں بھی کرانا ضروری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جتنا قتل و غارت، امریکہ میں ہوتا ہے، اس کی مثال، جنگ زدہ علاقوں میں ملے تو ملے، کسی اور جگہ ملنا محال ہے۔ اب اس تازہ شیطانی ایجاد کی حمایت کرنے والے، اسے شخصی آزادی سے تعبیر کرتے اور اس پیدائشی حق کی راہ میں، اڑچن ڈالنے والوں کو، غاصب قرار دیتے ہیں! ع مصرع تر کی صورت میر، بلا شبہ، اردو غزل کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ فارسی میں بھی، حافظ کے سوا، ان کے مقابلے کا غزل گو نہیں ہوا۔ میر کے بہتر نشتروں کا تعین تو خیر کیا ہوتا، آج تک ان کے کلام کا، ڈھنگ کا انتخاب تک نہیں ہوا۔ اسی طرح، ان کے کمال پر، اس خاکسار کے محدود علم میں، ایک جامع مضمون بھی نہیں لکھا گیا! شعر کے ہر پہلو پر وہ، نہ صرف یہ کہ خود بہت غور و فکر اور تامل کرتے تھے، سننے والوں کے لیے بھی تو بتو، معنی ہی معنی بھرے ہوئے ہیں۔ بجا فرما گئے ہیں کہ بے تامل کے شناسی، طرز گفتار مرا دیدہ نازک کن، کہ فہمی حرف تہ دار مرا اس تہ داری کی ایک مثال دیکھیے۔ کہتے ہیں۔ یہ جو چشم ِپْر آب ہیں، دونوں ایک خانہ خراب ہیں، دونوں اس شعر کی اور خصوصا مصرعہ ثانی کی مولانا حالی نے بھی، بہت تعریف کی ہے۔ "ایک" اور "دونوں" کی رعایت کو مولانا نے بہت پسند فرمایا۔ لیکن شعر کا اصل جوہر، اسے پڑھنے میں نہیں، سننے میں کھْلتا ہے! مولانا کی نظر غالبا ادھر نہیں گئی۔ سننے میں مصرعہ اولیٰ "چشم ِپْرآب" کا ٹکڑا، "چشمے پْر آب ہیں دونوں" بھی بن جاتا ہے! اب اس نظر سے دیکھیے گا تو معنی کا وفور، اور بڑھ جاے گا! پڑھنے اور سننے میں، شعر کیا سے کیا ہو جاتا ہے، اس کی ایک مثال اور دیکھتے جائیے۔ شاعر کہتا ہے۔ طاعت میں تا، رہے نہ، مے و انگبیں کی لاگ دوزخ میں ڈال دو، کوئی لے کر، بہشت کو ہمارے غیور اور بے نیاز شاعر نے اپنا مدعا بھی "بے نیازی" سے بیان کیا ہے! یعنی ساری دنیا، شاعر کے برخلاف، مے و انگبیں کی لاگ میں مری جا رہی ہے۔ اور ایسی لاگے کے نتیجے میں، جنت، جو غالبا ًبڑی آسانی سے حاصل ہو جانے والی ہے، اتنی ہی سہولت سے، دوزخ میں ڈال دی جائے! ظاہر ہے کہ مے و انگبیں سے مراد، ثواب کا لالچ ہے۔ مگر شاعر کا ذہن، شراب اور شہد کی چلتی ہوئی تشبیہ سے اوپر نہیں اٹھ سکا۔ کہنا یہ تھا کہ ثواب و عذاب اور جنت و جہنم کے بجائے، نیکی اور بدی کا فرق آدمی کا راہبر ہو۔ مگر بندھ کچھ سے کچھ گیا۔ اس پہلو کو بھی دیکھیے کہ سننے میں، ذہن معا اس طرف جاتا ہے کہ "طاعت" میں "طا" نہ رہے اور صرف "عت" باقی رہ جائے! اس پر بھی، ہمارے شاعروں کو، گمان نہیں، یقین ہے کہ ع آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں!