محترمہ مہتاب اکبر راشدی نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کا ایک جانا مانا نام ہے۔ حیدرآباد سے ابھر کر ریڈیو پاکستان سے ہوتی ہوئی سندھ یونیورسٹی عبور کرکے سیکریٹری تعلیم اور پھر سیکریٹری کلچر اور سیکریٹری انفارمیشن بننے والی وہ پہلی خاتون ہیں، جن کا ابتدائی تعلق سندھ کی مڈل کلاس سے تھا۔ اب تو وہ ایک خوشحال شخصیت ہیں۔ مگر ایک وقت ایسا بھی تھا جب ان کے پاس اپنی گاڑی نہیں تھی اور وہ یونیورسٹی کی بس میں سفر کیا کرتی تھیں۔ ایک عرصے تک وہ ٹیلی ویژن اسکرین پر اپنی آواز کا جادو جگاتی رہیں اور بعد میں انہوں نے پیر پگارو کی مسلم لیگ (ف) کی خاتون رکن اسمبلی بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ حالانکہ سماجی اور ادبی تقریبات میں انہوں نے ہمیشہ سندھ کے پیروں اور وڈیروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا مگر انہوں نے چند روز قبل پیپلز پارٹی میں شرکت کرکے اپنے مداحوں کوحیران کردیا۔ کیوں کہ وہ ابتدا سے پیپلز پارٹی پر کرپشن کرنے اور سندھ کے حقوق پر سودا کرنے کے الزامات عائد کیا کرتی رہیں ہیں۔ ان کی شناخت ایک تعلیم یافتہ اور قوم پرست خیالات والی خاتون کی طور پر ہوتی رہی مگر کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ ایک دن وہ اس پارٹی کو اپنی پارٹی بنائیں گی جس پارٹی سے انہوں نے پوری زندگی اختلافات رکھے۔ حالانکہ اقتدار میں آنے سے قبل بینظیر بھٹو کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ تھے مگر وہ پیپلز پارٹی کی مبینہ موقع پرستی کو معاف نہ کر پائیں اور انہوں نے اپنے راہیں الگ کرلیں۔ مہتاب اکبر راشدی کی طرف سے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے سے سندھ کی سوشل میڈیا کو ایک گرما گرم موضوع مل گیا اور لوگ طرح طرح کے تبصرے کرتے رہے۔ جب کہ مہتاب اکبر راشدی نے خود کہا کہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کے کام کروانا چاہتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے علم اور تجربے سے یہ اندازہ لگایا کہ سندھ میں ’’اگلی باری پھر زرداری‘‘ ہوگا۔ اس لیے حزب اختلاف میں بیٹھ کر چیخنے چلانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا سیاست صرف فائدے کے لیے کی جاتی ہے؟ کیا سیاست کا کوئی اور مقصد نہیں ہوتا؟ کیا سیاست انسان کے ضمیر کو بیداررکھنے اور ایک نظریے کے لیے مستقل جدوجہد کرنے کا نام نہیں؟ کیا سیاست صرف اقتدار تک پہنچنے کا نام ہے؟ اگلے وقتوں میں تو ایسا نہیں تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جب بغیر نظریے اور بغیر مقصد کے اقتدار میں شامل ہونا ایک عیب سمجھا جاتا تھا۔ مگر گذشتہ تین دہائیوں سے جو ہوائیں چل رہی ہیں اس میں آدرشی انسانوں کو دیوانہ کہا جاتا ہے اور جو لوگ اقتدار سے دور رہتے ہیں انہیں دانش مند نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب نظریاتی سیاست کرنے والوں کو انقلابی سمجھا جاتا تھا۔ ان انقلابی لوگوں نے عزت کی جاتی تھی۔ حالانکہ ان لوگوں سے لوگ نظریاتی اختلاف بھی رکھتے تھے مگر جب بھی وہ ان سے ملتے تو عزت و احترام سے پیش آتے اور ان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے کہ ہمارے نظریات میں اختلافات ہیں مگر ہم ان کے کردار کے حوالے سے ان کی عزت کرتے ہیں۔ مہتاب اکبر راشدی تو زندگی کے کسی دور میں انقلابی نہیں رہیں اور نہ کبھی ان پر کوئی سیاسی مقدمہ درج ہوا ہے مگر سندھ کے کمیونسٹ حلقوں میں مرحوم جام ساقی کا نام کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں رہا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے بہترین برس قید خانوں کی نذر کردیے۔ ان پر اتنا تشدد ہوا کہ انٹر نیشنل اداروں نے انہیں ’’ضمیر کے قیدی‘‘ ہونے کا اعزاز بھی دیا مگر جب وہ آزاد ہوئے تو سوشلسٹ کیمپ بکھر چکا تھا۔ حالانکہ معاشرے میں طبقاتی نظام موجود تھا۔ وڈیرہ کسان کا حق کھا رہا تھا۔ سرمائے دار مزدور کو دبا رہا تھا۔ سامراج اپنی بین الاقوامی من مانیوں میں مصروف تھا۔ سب کچھ وہی تھا ۔ مگر جب دانشوروں اور صحافیوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ سوشلزم کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ہے تب سب نے دیکھا کہ جام ساقی جیسے مثالی انسان بھی کمیونسٹ پارٹی کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور ان کو سندھ حکومت میں ایک برائے نام مشیری سے بھی نوازا گیا۔ یہ ایک عجیب دور تھا۔ اس دور سے آج تک ہم نے ماضی کے انقلابیوں کو اقتداری گلیوں میں پھیرے لگاتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ سلسلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ چند روز قبل بھارتی کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے مشہور نوجوان رہنما کنہیا کمار نے بھی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو چھوڑ کر کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی۔ کیوں کہ اس بار کہا جاتا ہے کہ مودی کا اقتدار میں آنا ذرا مشکل ہے۔ اس لیے بھارت کے کمیونسٹ نوجوان نے اسمبلی میں جانے کا راستہ بنانے کے لیے کانگریس کو صحیح سمجھا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی ٹکٹ سے کبھی اسمبلی میں نہیں پہنچ سکتے۔ اس لیے انہوں نے کانگریس میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس فیصلے کو بھارت کے آدرشی حلقوں میں تنقیدی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ جب کہ ان کے حامی یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ کوئی ڈوبتی ہوئی کشتی میں کب تک بیٹھ سکتا ہے؟ جام ساقی سے لیکر مہتاب اکبر راشدی اور مہتاب اکبر راشدی سے لیکر کنہیا کمار تک جو کچھ بھی ہو رہا کیا وہ ایک فطری عمل ہے؟ کیا انقلابی سیاست کا وقت پورا ہو چکا ہے؟ کیا اس وقت صرف اور صرف اقتداری سیاست کا سکہ ہی چلے گا اور بس؟ اس سوال پر دنیا کی دانش سوچ رہی ہے۔ اس سوال پر ہم کو بھی سوچنا چاہئیے۔ کیوں کہ اگر بات صرف اقتدار کی ہوگی تو پھر اصولوں پر کون چلے گا؟ جب سیاست میں اصول باقی نہیں بچیں گے تو پھر لوگ کیا کریں گے؟ کیا صرف سیاست نوٹوں اور ووٹوں کی بازار بن کر رہے گی؟ اگر ایسا کچھ ہوتا رہا اور اس روش میں تبدیلی نہیں آئی تو پھر ملک اور معاشرے کی تعمیر کس طرح ہوگی؟ یہ سوال کسی فرد کے حوالے سے نہیں ہے۔ کیوں کہ بہت سارے افراد ہیں جنہوں نے اقتدارکے لیے اپنے افکار تبدیل کردیے ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ اس وقت پشتون قوم پرست افراسیاب خٹک جلاوطنی میں کمیونسٹ سیاست کا علمبردار تھا مگرا نہوں نے ملک واپس آکر عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور وہ سینیٹ تک پہنچ گئے تو کل کلاں اگر وہ کسی اور جماعت میں چلے جائیں توہمیں کوئی حیرت نہیں ہو گی۔ دنیا جس راستے پر چل پڑی ہے وہ راستہ سائنسی ترقی کا ضرور ہے مگر فکر کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہم آگے بڑھنے کے بجائے مسلسل پیچھے جا رہے ہیں۔ کیوں کہ ہم نے ہر چیز کو خرید کی جانے والی جنس میں تبدیل کرنا شروع کردیا ہے۔ سیاست ملک کی حکمرانی کا نام نہیں۔ سیاست ملک کی خدمت کا راستہ بھی تو ہے اور اب حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اگر کوئی ملکی خدمت کی بات کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا وہ خود احمق ہے یا ہمیں بیوقوف بنا رہا ہے۔ کیا ہم فکری طور پر زوال کا شکار نہیں ہو رہے؟ میں نے اس کالم میں صرف بائیں بازو کی سیاست کرنے والی شخصیات کا نام لکھے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں بازو آزمائے جا چکے ہیں۔ بائیں بازو کے ساتھ عالمی سطح پر دایاں بازو بھی وہی کام کرنے میں مصروف ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس کو دنیاداری کہتے ہیں۔اگر ہم سب دنیا داری میں مصروف ہوگئے تو پھر وطن عزیز کی دلداری کون کرے گا؟