بعد میں جب الطاف شاہ اپنے والد کے ساتھ اس دکان کو سنبھالنے لگے تو یہ جماعت اسلامی، پیپلز لیگ، آزادی پسند تنظیموںکے لیڈروں کا ٹھکانہ بن گئی۔ یہ ایک طرح سے سیاست کے دو کناروں کے لیڈروں کا ایک میٹنگ پوائنٹ بن گیا تھا۔ الطاف شاہ کی کاوشوں سے شہر سرینگر کے متعددنوجوان نیشنل کانفرنس اور شیخ عبداللہ کے سحر سے آزاد ہوگئے۔جب نوے کے وسط میں انتہائی بدقسمتی اور بد بختی کی وجہ سے شہر میں العمر، جے کے ایل ایف اور حزب المجاہدین کے درمیان انٹر گروپ تنازعات شروع ہوئے اور اس قدر بڑھ گئے کہ ایک دوسرے کو قتل کرنا اور اغوا کرنا معمول بن گیا تو الطاف شاہ کے کنکشن اور رابطے کام کرتے تھے۔ وہ ایک زیرک سفارت کار اور ڈپلومیسی کے ذریعے معاملات سلجھانے کی کوشش کرتے تھے۔ کیونکہ تقریبا ہر گروپ میں ان کے قدر شناس موجود ہوتے تھے یا ایسے اشخاص جن کو انہوٍں نے آڑے اوقات میں پناہ دی ہوئی ہوتی تھی، کسی کی مدد کی تھی۔ شیخ عبداللہ کے علاوہ شہر کے چند علاقوں میں میرواعظ خاندان کا طوطی بولتا تھا اور یہ دونوں مل کر کسی تیسری قوت کو شہر میں پیر جمانے نہیں دیتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتے تھے ، عدم برداشت ان کے کارکنوں میںکوٹ کوٹ کر بھر ی تھی۔ 1978میں جماعت اسلامی طلبہ کیلئے اسلامی جمعیت طلبہ تنظیم کا قیام عمل میں لائی اور اس کی ذمہ داری محمد اشرف صحرائی کو سونپ دی، الطاف احمد شاہ کو 21 سال کی عمر میں اس کا پہلا جنرل سیکرٹری بنادیا۔ 1979 میں جب اس تنظیم کا پہلا اجلاس گول باغ (حالیہ ہائی کورٹ کمپلکس) میں منعقد ہوا تو اس میں دس ہزار طلبہ نے شرکت کی۔ 1980 میں اس تنظیم نے شیخ تجمل اسلام کی قیادت میں ایک اسلامی کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا، جس کی پہلے تو حکومت نے اجازت دے دی بعد میں پابندی لگائی اور اسکے منتظمین کو حراست میں لے لیا۔ شاید یہ الطاف احمد شاہ کی پہلی گرفتاری تھی۔ و ہ اس وقت کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ ا یجوکیشن میں پوسٹ گریجوشن کے طالب علم تھے۔ ان کو پہلے ادھم پور اور پھر ریاستی جیل میں رکھا گیا۔ 1981تک یہ تنظیم بیشتر تعلیمی اداروں میں اپنی شاخیں بنا چکی تھیں۔ اس کے ساتھ جماعت میں یہ خدشہ سر اٹھانے لگا کہ آگے چل کر یہ ایک متوازی تنظیم نہ بن جائے، حالانکہ اس کے دستور میں یہ شق موجود تھی کہ طالب علمی کے چار سال بعد رکنیت خودبخود ختم ہو جائیگی۔ ایک سال بعد جماعت اسلامی نے اسلامی جمیعت طلبہ کی انفرادی آزادحیثیت کو ختم کرکے اسکو شعبہ طلبہ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کردیا۔ جب جمعیت نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کیا تو جماعت نے اس طلبہ تنظیم میں موجود اپنی افرادی قوت کو واپس بلایا اور ان کو شعبہ طلبہ کی ذمہ داری دی ان میں الطاف احمد بھی شامل تھے۔ میں نے پہلی بار ان کو غالباً اکتوبر 1983میں دیکھا۔ اسکول کے امتحانات ختم ہوچکے تھے، تو میں سوپور سے اپنے ننہال سرینگر کے قدیمی علاقے مہاراج گنج آیا ہوا تھا۔ سرینگر سے شائع ہونے والے روزنامہ آفتا ب میں ان کے مضامین پڑھتا تھا۔ ان دنوں اسمبلی انتخابات کی مہم زوروں پر تھی ۔ شیخ عبداللہ کی موت کے ایک سال بعد نیشنل کانفرنس یہ انتخابات فاروق عبداللہ کی قیادت میں اور میرواعظ کی پارٹی عوامی ایکشن کمیٹی کے اشتراک کے ساتھ لڑ رہی تھی۔ جماعت اسلامی نے زینہ کدل سیٹ سے الطاف احمد کو کھڑا کیاہوا تھا۔ یہ شیروں کے ساتھ ان کی کچھار میں پنجہ آزمائی کے مترادف تھا۔لگا کہ باہر کچھ شور برپا ہے۔ ایک نوجوان درازہ کھٹکھٹا کر لوگوں سے جماعت اسلامی کے نشان ترازو پرووٹ ڈالنے کی استدعا کر رہا تھا۔ ان سے علیک سلیک تو نہیں ہوئی، مگر میں نے دیکھا کہ گلی میں لوگ ان کو کوس رہے تھے،گالیاں دے رہے تھے کہ وہ کیسے شیخ عبداللہ کی پارٹی کی مخالفت کرنے کی جرأت کر رہا ہے۔مقامی مسجد کے پاس چند لوگ باتیں کر رہے تھے کہ یوسف صاحب جیسے شریف آدمی نے اولاد نا خلف کو جنم دیا ہے وہ کیسے اس کو برداشت کر رہے ہیں؟ اس الیکشن میں ان کو بس 461ووٹ ملے تھے۔ 1986میں جب ان کی شادی علی گیلانی کی تیسری بیٹی زاہدہ سے طے ہوئی تو وہ کئی بار جیل کی ہوا کھا چکے تھے اور جماعت اسلامی کے سرگرم اراکین میں شامل تھے۔ اس رشتہ کی وجہ سے اگلے سال 1987کے الیکشن میں ان کو منڈیٹ نہیں دیا گیا۔کیونکہ مسلم یونائیٹد فرنٹ کا اتحاد ، جو نیشنل کانفرنس ۔کانگریس اتحاد کے خلاف بن گیا تھا،نے علی گیلانی کو پارلیمانی بورڈ اور انتخابی مہم کا سربراہ بناکرامیدواروں کوسلیکٹ کرنے کا کام سپرد کر دیاتھا۔ اس وقت حکومتی اتحاد کے خلاف ایک زبردست لہر چل رہی تھی۔ فاروق عبداللہ کے کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے سے شہر میںخصوصاً غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی۔ بھارت میں اس پر اتفاق رائے ہے کہ ان انتخابات میں بے تحاشا دھاندلیوں اور نتائج میں ہیر پھیر کی وجہ سے ہی 1989میں عسکری تحریک کا جنم ہوا۔ مینڈیٹ نہ ملنے کے باوجود الطاف شاہ ہی شہر سرینگر میں انتخابی اسٹریٹجی کی کمان کر رہے تھے۔ حزب المجاہدین کے سربراہ محمد یوسف شاہ (صلاح الدین) لال چوک حلقہ سے انتخابی میدان میں تھے، اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے سربراہ محمد یاسین ملک ان کے انتخابی ایجنٹ تھے۔ الطاف شاہ سے میری باضابط پہلی ملاقات دہلی کے کشمیر ہائوس میں 1990میں ہوئی، جب میں جرنلزم کی پڑھائی کیلئے دہلی وارد ہوچکا تھا۔ ہمارے ایک رشتہ دار کشمیر یونیورسٹی میںپروفیسر وجیہہ احمد علوی امریکہ جا رہے تھے اور سامان وغیرہ کی پیکنگ کرنے کیلئے انہوں نے مجھے شام کو کشمیر ہائوس آنے کیلئے کہا، جہاں و ہ ٹھہرے تھے۔ ان ہی کے کمرے میں الطاف شاہ بھی ٹھہرے تھے، جو چند روز قبل سرینگر میں حالا ت خراب ہونے کے سبب آئے تھے اور دہلی میں سفارتی اور میڈیا کے اداروں کو اس کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ کشمیر ہائوس سے باہر کہیں رہائش پذیر ہونا چاہتے تھے۔ ڈنر کے بعد وہ میرے ساتھ ہی نکلے اور میرے ایک کمرے کے ڈیرے پر مقیم ہوئے۔ میں دن بھر کلاس اٹینڈ کرکے جب واپس آتا تھا تو اکثر کسی ہوٹل میں رات کا کھانا کھاتا تھا۔ مگر الطاف شاہ نے آتے ہی اسٹوو اور برتنوں کا انتظام کردیا اور کافی دنوں بعد ان کی وجہ سے گھر جیسا کھانا نصیب ہوتا تھا۔ چونکہ ان کے پاس مہمان وغیرہ آتے تھے تو انہوں نے کچھ عرصہ بعد الگ رہائش کا انتظام کردیا۔ چند ماہ بعد جب وہ عید منانے سرینگر جا رہے تھے تو ائیر پورٹ پر ان کو گرفتار کرکے جموں کے جوائنٹ انٹروگیشن سینٹر (جے آئی سی) پہنچادیا گیا۔ ان ہی دنوں وہاںعلی گیلانی کو بھی پہنچایا گیا تھا۔ ان کے سامنے ان کو تعدیب کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ان کو پورے آٹھ ماہ تک ایک تاریک قبر میں رکھا گیا ۔ روداد قفس میں سید علی گیلانی رقم طراز ہیں کہ ان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ نوجوان اس قبر میں کیسے زندہ رہا؟ کسی جاندار شے کو ایک طویل عرصے تک سورج کی روشنی سے محروم رکھا جائے تو اس کی جان دھیرے دھیرے نکلتی ہے ۔ جسم پھول جاتاہے اور اعضاء پر کائی جم جاتی ہے۔ پھر خودبخود اسکی موت واقع ہو جاتی ہے۔الطاف شاہ صرف اس لئے اس مقتل سے زندہ لوٹ آیا کہ اللہ نے ابھی اس کی زندگی باقی رکھی تھی، ورنہ پروگرام تو یہی لگ رہا تھا کہ گھٹ گھٹ کر، سڑ سڑ کر ، ایڑیا ں ، رگڑتے رگڑتے، وہ جان جان آفریں کے سپرد کردے۔(جاری ہے)