مکہ مکرمہ میں زائرین حرم امام عالی مقام علیہ السلام کے قیام سے بہت خوش تھے ۔ہر وقت ملنے کے لئے ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا۔امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں لوگ امام عالی مقام سے مستفیض ہونے کے لئے ہر وقت جمع رہتے تھے ۔’’لانہ السید الکبیر و ابن بنت رسول اللّٰہ فلیس علی وجہ الارض یومئذ احد یسامیہ ولا یساویہ‘‘کیونکہ آپ بہت بڑے سردار تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی کے بیٹے تھے اور اس وقت روئے زمین پر آپ کی مثل کوئی نہیں تھا۔(البدایہ والنہایہ،ج۸،ص۱۵۱) مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران امام حسین علیہ السلام کو کوفیوں کی طرف سے خطوط موصول ہونا شروع ہوگئے ۔ان خطوط کے ذریعے امام عالی مقام علیہ السلام کو کوفہ آنے کی دعوت پر زور دیا گیا۔ابن کثیر نے لکھا ہے کہ خطوط کی تعداد معتبر روایات کے مطابق ۱۵۰ سے زائد تھی( البدایہ والنہایہ،ج۸،ص۲۶۱ )خطوط میں کوفیوں نے امام عالی مقام علیہ السلام کو لکھا کہ آپ کوفہ تشریف لے آئیں تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے اور مل کر خلافتِ اسلامیہ کی جدوجہد کا آغاز کریں گے ۔ امام عالی مقام علیہ السلام نے کوفہ والوں کے اصرار پرمکہ سے کوفہ کی طرف جانے کا ارادہ کر لیا۔صحابہ کرام کو جب آپ کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے ہر ممکن آپ علیہ السلام کو کوفہ جانے سے روکا۔ آخرکارطے یہ ہوا کہ امام حسین علیہ السلام پہلے کسی کو کوفہ کے حالات جاننے کے لئے روانہ کریں،اگر حالات موافق ہوں تو امام عالی مقام بھی روانہ ہو جائیں گے بصورت دیگر مکہ مکرمہ میں ہی قیام فرمائیں گے ۔امام حسین علیہ السلام نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنا کر کوفہ روانہ کر دیا تاکہ وہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر امام کو آگاہ کر سکیں۔امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ جب کوفہ پہنچے تو آپ کا شاندار استقبال کیا گیا۔لوگوں نے جوق در جوق آپ کی بیعت کی۔امام طبری نے لکھا ہے کہ امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کی تعداد اٹھارہ ہزار تھی(تاریخ الامم و الملوک،ج۴،ص۲۷۵) جبکہ ابن عساکر نے بیعت کرنے والوں کی تعدادچالیس ہزار بتائی ہے (ترجمۃ الامام الحسین،ص۲۸۴)امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے امام عالی مقام علیہ السلام کو کوفہ کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے لکھا کہ جناب سارا شہر آپ کی تشریف آوری کا منتظر ہے ۔ لوگ والی کوفہ نعمان بن بشیر کے پیچھے جمعہ کی نماز نہیں پڑھتے ،آپ خط موصول ہوتے ہی کوفہ تشریف لے آئیں۔امام عالی مقام نے خط موصول ہونے پر روانگی کا پروگرام بنا لیا۔اہل مکہ نے امام عالی مقام علیہ السلام کو بڑی شدت سے روکا کہ کوفہ نہ جائیں۔امام عالی مقام علیہ السلام نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں آپ سب میرے مشفق و خیر خواہ ہیں مگرمیں جانے کا عزم مصمم کر چکا ہوں۔حضرت ابو بکر بن حارث نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اے امام!ہم میں حضرت علی علیہ السلام سے بڑی ہستی کس کی ہوگی؟مگر کوفیوں نے لالچ میں آکر ان کا ساتھ بھی چھوڑ دیااور بعد میں حضرت حسن علیہ السلام سے بھی بے وفائی کی،لہذا آپ ایسے ظالموں سے بھلائی کی کیا امید رکھ سکتے ہیں۔(طبری،ج۶، ص۲۱۶)حضرت عبد اللہ ابن عباس،حضرت عبد اللہ ابن عمر، حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کرام نے امام عالی مقام علیہ السلام کو روکنے کی بہت کوشش کی کہ آپ مکہ مکرمہ کو نہ چھوڑیں مگرامام عالی مقام علیہ السلام عزم مصمم کے ساتھ۴ ماہ ۱۰ دن مکہ قیام فرمانے کے بعد ۷ذی الحجہ کو اہل بیت اطہار کو ساتھ لے کر کوفہ روانہ ہوئے ۔امام عالی مقام علیہ السلام کا خیال یہ تھاکہ کوفہ کی اکثریت کا اس قدر اصرار کرنا، التجائیں کرنا،عرضداشتیں لکھنا اور امام مسلم بن عقیل کا خیریت نامہ و دعوت نامہ بھیجنا اب کسی بھی طرح اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاکوفہ جانے سے انکار کرنا ان کے شایان شان نہیں ہے اور وہاں نہ جاناکوفہ والوں کی دل آزاری کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔ کوفہ روانگی کے وقت ابن عساکر کی روایت کے مطابق امام عالی مقام علیہ السلام کے قافلہ میں ۶۰ اصحاب اور ۱۹ افراد (بچوں اور عورتوں سمیت)اہل بیت کے شامل تھے (ترجمۃ الحسین و مقتلہ،ص۱۷۰) مکہ مکرمہ سے روانہ ہونے سے قبل اہل بیت کے قافلہ والوں نے کعبۃ اللہ کا آخری طواف کیا اور غلاف کعبہ سے لپٹ لپٹ کرخوب دعائیں کیں،ان کی دل سوز دعاؤں سے اہل حرم کی آنکھیں اشکبار اور دل مغموم تھے مگرقافلہ صبر و رضا والے ہمت اور استقامت سے منزلِ امتحان کی طرف بڑھنے لگے ۔حاکم مکہ عمرو بن سعید العاص کو ولید بن عتبہ کے معزول ہونے کی خبر مل چکی تھی اس لئے وہ خود اس انجام سے بچنا چاہتا تھا،اور ا س کی خواہش تھی کہ امام عالی مقام علیہ السلام مکہ میں ہی مقیم رہیں۔اس کو جب امام کے کوفہ روانہ ہونے کی اطلاع ملی تو وہ اپنے انجام کی وجہ سے غمگین ہوا،اس لئے اس نے اپنے بھائی یحیٰ بن سعید کو چند سواروں کے ساتھ اس غرض سے روانہ کیاکہ وہ قافلہ امام حسین علیہ السلام کو ہر قیمت میں کوفہ جانے سے روکیں اور ان کو واپس مکہ لے کر آئیں۔ان سواروں نے قافلے کو روکنے کی ناکام کوشش کی حتیٰ کہ مار پیٹ بھی کی اور امام عالی مقام علیہ السلام سے کہنے لگے :کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے ؟ جماعت سے نکل کر امت میں تفریق ڈالتے ہو؟ امام عالی مقام علیہ السلام نے فرمایا:’’لِیْ عَمَلِیْ وَ لَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِیْئُوْنَ مِمَّااَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیً مِمَّا تَعْمَلُوْنَ‘‘ یعنی میرا عمل میرے لئے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ہے ،تم میرے عمل سے بری اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں۔ (طبری،ج۶،ص۲۱۸) راستے میں امام عالی مقام علیہ السلام کی ذات عرق کے مقام پر بشیر بن غالب اسدی سے ملاقات ہوئی۔امام عالی مقام علیہ السلام نے ان سے کوفہ والوں کا حال دریافت کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ جناب ان کے دل آپ کے ساتھ اور تلواریں یزید کے ساتھ ہیں مگر اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے ’’یَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآئُ‘‘(سورہ ابراہیم۲۷) امام عالی مقام علیہ السلام نے فرمایا:بے شک درست کہا آپ نے ۔راستے میں عبد اللہ بن مطیع سے بھی ملاقات ہوئی اور انہوں نے امام عالی مقام علیہ السلام کو بہت روکا اور بڑے اندیشے ظاہر کئے ،امام نے فرمایا ’’لَنْ یُّصِیْبَنَا اِلَّا مَاکَتَبَ اللّٰہُ لَنَا‘‘ (سورہ التوبہ،۵۱)یعنی ہمیں وہی مصیبت پہنچ سکتی ہے جو ہمارے لئے مقرر فرما دی ہے ۔(البدایہز والنہایہ،ج۵، ص۶۶۸) دوران سفر امام عالی مقام علیہ السلام کو کوفیوں کی بد عہدی اور امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر جب موصول ہوئی تو آپ نے قافلہ والوں سے مشاورت کی کہ واپس چلیں یا سفر جاری رکھیں،سب نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور یہی طے ہوا کہ سفر جاری رکھیں۔آخرکار ۶۱ ہجری ۲ محرم الحرام کو امام عالی مقام علیہ السلام کا یہ قافلہ عزیمت کربلا میں پہنچا اور وہیں پر خیمے گاڑے اور پڑاؤ کیا۔ (البدایہ و النہایہ، ج۵،ص۶۷۵)اللہ تعالیٰ ان نفوس قدسیہ کے عز م و ہمت اور صبر و استقامت کے طفیل ہمیں بھی حق کا ساتھ دینے اور باطل کے خلاف نبردآزما رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور قیامت کے دن امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام کے جھنڈے تلے جگہ عطا فرمائے ۔آ مین