آج کل ملکی سیاست میں اس خط کا بہت چرچہ ہے جس میں وزیر اعظم عمران خان کو مبینہ دھمکی دی گئی ہے۔ وہ خط جو حساس ہونے کے باوجود آہستہ آہستہ کھلتا جا رہا ہے۔ پہلے صرف اندازہ تھا کہ وہ خط امریکہ کی طرف سے بھیجا گیا ہے مگر اب اس کی تصدیق ہوگئی ہے یہ خط دنیا کے سیاسی سپر پاور کی طرف سے آیا ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے لکھا گیا یہ خط ہے تو پاکستان کے لیے مگر اس خط میں عمران خان کو نشانہ بنایاگیا ہے۔ اس وقت امریکہ نے اس خط کے سلسلے میں نہ تردید کی ہے اور نہ تصدیق کی ہے۔ مذکورہ خط کے بارے میں امریکی خاموشی اس بات کا ثبوت بنتی جا رہی ہے کہ یہ خط امریکہ کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ اس خط کے غلط اور نقلی ہونے کے حوالے سے ملکی اپوزیشن بڑھ چڑھ کر بول رہی ہے ۔ بلاول بلند آواز سے کہہ رہے کہ امریکی صدر تو وزیر اعظم عمران خان کو فون تک نہیں کرتے۔ وہ کیوں خط لکھیں گے؟ حالانکہ اس قسم کا جواب امریکہ کی طرف سے آنا چاہئیے تھا۔ اگر امریکہ کی طرف سے خط نہ لکھا جاتا تو کیا امریکہ کا ردعمل ایسا ہوتا؟ امریکہ اپنے بارے میں بہت حساس ہے۔ وہ کبھی بھی ایسے کسی شک کو بھی برداشت نہیں کرتا جو اس کے بارے میں پھیلایا جاتا ہے۔ یہ تو خط ہے۔ وہ خط جو ایک ملک کے حکمران کو لکھا گیا ہے۔ امریکہ نے اگر یہ خط نہ لکھا تو ہوتا تو وائٹ ہاؤس کا ترجمان صرف ’’نہیں‘‘ نہ کہتا۔ وہ تفصیل سے اس کی وضاحت کرتا اور پاکستان سے سخت احتجاج بھی کرتا۔ وہ آفیشل انداز سے تردید کر چکا ہوتا کہ پاکستان میں جس خط کا چرچہ ہے اس خط سے امریکہ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر امریکہ خاموش ہے اور اس بارے میں خاموشی نیم نہیں بلکہ مکمل رضامندی ہوا کرتی ہے۔امریکہ مذکورہ خط کی تصدیق اس لیے نہیں کر رہا کہ اس قسم کے کام سفارتی آداب کے خلاف ہوا کرتے ہیں۔ بھلے پاکستان ایک چھوٹا اور کمزور ملک ہو مگر اقوام متحدہ کے اسٹیج پر جہاں امریکی جھنڈا جھولتا ہے و ہاں پاکستان کا پرچم بھی سربلند نظر آتا ہے۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی توہین کرے۔ امریکی خط کا مطلب پاکستان کو دھمکانہ ہے۔ پاکستان کو ڈرانا ہے۔ پاکستان کو اپنے اشاروں پر چلانا ہے۔۔ اس خط سے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان امریکی اشارے پر چلنے والے حکمران نہیں ہیں۔ کیوبا بہت چھوٹا ملک ہے اور کیوبا امریکہ کے پڑوس میں ہے۔ اگر امریکہ اپنا پہلو بھی تبدیل کرے تو وہ کیوبا کو مسل سکتا ہے مگر کیوبا نے نہ صرف سرد جنگ کے دوراں بلکہ سوویت یونین کے بعد بھی امریکہ سے آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کی ہے اور اس نے اب تک کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔ ویسے بھی ممالک تب بڑے ہوا کرتے ہیں جب وہ اپنی آزادی کے ساتھ اپنی عزت کا بھی تحفظ کرتے ہیں۔ امریکہ اگر پاکستان کو تھوڑی امداد دے کر یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان اس کا غلام ہے تو یہ ہر ایک پاکستانی کی توہین ہے۔ اگر ایران اور شام امریکہ کے مخالف ہوتے ہوئے بھی زندہ رہ سکتے ہیں تو پاکستانی کیوں نہیں؟ پاکستان کی صورتحال نہ تو شام جیسی ہے اور نہ ایران کی طرح اس نے عالمی سیاست میں کوئی الگ بلاک بنایا ہے۔ پاکستان کی صورتحال تو برادر اسلامی ملک ترکی جیسی ہے۔ ترکی امریکی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کرتا ہے اور اس سے تعلقات کا بھی رکھتا ہے۔ جب امریکہ نے ادرغان کے خلاف سازش کی تو ترک عوام سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور امریکہ کو منہ کی کھانی پڑی۔ ایک غیور قوم کا ردعمل ایسا ہی ہوتا ہے جیسا ہم نے ترک قوم کا دیکھا اور اس وقت جس طرح عمران خان کی حکومت کمزور ہوتے ہوئے بھی عوام کے دلوں کو متاثر کر رہی ہے اور عمران خان ورلڈ پاور کی طرف سے معتوب ہونے کے باوجود اپنی قوم میں مقبول ہو رہے ہیں اس سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ پاکستانی عوام اپنے ملک کو سربلند دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے سیاستدان اپنے ذاتی مفاد کے لیے امریکہ سے ڈر کر اس کی جی حضوری کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر امریکہ پاکستان کا حقیقی دوست ہوتا تو وہ اس وقت پاکستان کی مدد کو آتا جب بھارت نے مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے لیے پاکستان پر جنگ مسلط کردی تھی۔ پاکستان امریکہ سے بار بار کہتا رہا ہے کہ اگر وہ اگر پاکستان کو بھارت سے زیادہ اہمیت نہیں دے سکتا تو کم از کم بھارت جتنی اہمیت تو پاکستان کا حق ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ یہ چاہا ہے کہ وہ پاکستان کو اپنے ریموٹ پر چلائے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات فطری ہیں مگر یہ تعلقات بھی امریکہ کے لیے ناقابل قبول رہے ہیں۔ جب بھی پاکستان چین کے ساتھ ترقیاتی تعاون کے لیے قدم بڑھاتا تو آمریکہ آگ بگولہ ہو جاتا ہے۔ اگر امریکی کے وہ سارے بیانات جمع کیے جائیں جو اس نے’’سی پیک‘‘ کے خلاف دیے ہیں تو ان بیانات پر مشتمل ایک کتاب وجود میں آسکتی ہے۔ مگر پھر بھی پاکستان خاموش رہتا آیا ہے۔ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں توازن پیدا کرنے کے لیے بہت بڑی جدوجہد کی ہے۔ مگر پاکستان کی اس کوشش کو بھی امریکہ کی طرف سے ناخوشگوار نظروں سے دیکھا گیا ہے۔ حالانکہ آج اگر امریکہ دنیا کی واحد سیاسی سپر پاور بنا بیٹھا ہے تو اس میں کلیدی کردار پاکستان کا ہے۔ پاکستان امریکہ سے کہہ سکتا ہے : ’’ہم کو دعائیں دو تجھے قاتل بنا دیا‘‘ اگر پاکستان اپنی تاریخ کی بہت بڑی رسک نہ لیتا تو شاید امریکہ آج تک اربوں کھربوں ڈالرز صرف اپنی قومی سکیورٹی پر خرچ کرتا ۔ یہ پاکستان تھا جس نے افغان جنگ میں مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے وہ صورتحال پیدا کی جس کی وجہ سے سوویت یونین کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہوگیا۔ کیا پاکستان کو اتنے بڑے احسان کا بدلہ اس صورت میں دیا جائے گا کہ اس کے وزیر اعظم نے صرف ماسکو میں بیٹھ پر پاکستان اور روس کے مابین ترقی کے نئے تعلقات کے بارے میں سوچا ہے تو امریکہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ! امریکہ کا یہ کردار شاید دنیا کے باعث حیرت نہ ہو کیوں کہ امریکہ نے اپنے محسن ممالک کے لیے ہمیشہ اس قسم کی زبان استعمال کی ہے۔ کیا ہم بھول سکتے ہیں کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی بادشاہ کے لیے کس لہجے میں کیسے الفاظ کا انتخاب کیا تھا۔ دنیا کو اس وقت بھی حیرت نہ ہوئی بالکل اسی طرح جس طرح امریکی دھمکی پر قومی غیرت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ہماری حزب اختلاف نے جس قسم کے ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے اس پر قوم کو کوئی حیرت نہیں ہو رہی۔