امریکی ریاست کا نسل پرستانہ ‘ دوغلا چہرہ دیکھنا ہو تو اسکے قریب واقع غریب‘ چھوٹے سے ملک ہیٹی کے مہاجرین سے اسکے سلوک پر نظر ڈالنی چاہیے۔ہزاروں میل دُور رہنے والے افغانوں سے ہمدردی جتانے والا یہ ملک اپنے ہمسایہ میں واقع آفت زدہ ملک کے مہاجروں سے غیرانسانی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں امریکہ اپنی سرحد سے تیس ہزار ہیٹی مہاجرین کو گرفتار کرکے ملک بدر کرچکا ہے۔ انہیں عارضی مہاجر کی حیثیت سے بھی قبول کرنے کیلیے تیار نہیں۔ ان میں سے کچھ کو امریکی ہوائی جہازوں میں بٹھا کر ہیٹی لے جایا گیا اور بعض ناروا روّیہ دیکھ کر میکسیکو چلے گئے۔ہیٹی کے مہاجرین کیلیے صدر بائیڈن بھی اسی غیرا نسانی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ نے بنائی تھی حالانکہ اقوام متحدہ کا یہ موقف ہے کہ ہیٹی کے حالات سنگین ہیں اور امریکی براعظم کے ممالک ا س ملک کے مہاجروں کو بے دخل نہ کریں۔ امریکی حکومت کی پالیسی اتنی ظالمانہ ہے کہ گزشتہ ماہ امریکہ کے ہیٹی میں سفیر ڈینئیل فوٹ نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے اپنے عہدہ سے استعفی دے دیا۔ ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی پر مشتمل ہیٹی بحر اوقیانوس (کیربئین) کا ایک جزیرہ نما ملک ہے جو کیوبا سے پچاس میل دُور واقع ہے۔ اسکی تقریباً ساری آبادی سیاہ فام غلاموں کی اولاد پر مشتمل ہے۔ہیٹی ان دنوں شدید غربت‘ سیاسی انتشار اور داخلی تشدد کا شکار ہے۔ وہاں روزگار نہیں ہے۔منظم پُر تشدد واقعات‘ لوٹ مار عام ہے۔ لڑائی جھگڑے کی نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اس سال جولائی میں ملک کے صدر کو قتل کردیا گیا تھا۔یہاں گیارہ سال پہلے آنے والے بڑے زلزلہ میں دو لا کھ لوگ ہلاک اور لاکھوں زخمی ہوئے تھے۔بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی ہوئی۔ مکانات تباہ ہوگئے۔ دس لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔اب ڈیڑھ سال سے کورونا وبا چمٹی ہوئی ہے۔ انہی اسباب کی بنا پر یہ ملک انسانی المیہ سے دوچار ہے۔ہیٹی کی اسّی فیصد آبادی بہت غریب ہے۔ اسکے باشندے روزگار اور امن کی تلاش میںقریب میں واقع لاطینی امریکہ کے ممالک جیسے چلی‘ دومینین ری پبلک‘ کولمبیا ‘ پانامہ وغیرہ بھی ہجرت کرکے جاتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ پہلے میکسیکو جاتے ہیں جس کی سرحد امریکہ سے لگتی ہے اسکے بعد وہاں سے امریکہ میںداخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہیٹی کے لاکھوں باشندے اسوقت امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر جمع ہیں۔تاہم ہیٹی کے مہاجرین کو امریکہ اور میکسیکو کی سرحد سے داخلہ کے وقت گرفتار کرلیا جاتا ہے۔پہلے ان کو پہلے نظر بند کیا گیا۔ اسکے بعد ملک بدر کردیا گیا۔ کیونکہ جو ایک مرتبہ ایک سال کے لیے مہاجر ہونے کا رُتبہ اختیار کرلے اسے مستقل رہائش رکھنے کا حق ( گرین کارڈ) مل جاتا ہے اور پانچ سال بعد وہ شہریت کا حقدار بن جاتا ہے۔ امریکہ ہیٹی کے مہاجروں کو قبول کرنے سے اسلیے انکار کرتا ہے کہ وہ بتدریج امریکی شہریت کے حقدار بن جائیں گے۔امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ تو مہاجروں کے امریکہ آنے کے سخت مخالف تھے۔ انہوں نے امریکیوں کو ڈرانے کیلیے مشہور کردیا تھا کہ ہیٹی سے آنے والے مہاجرین کو ایڈز کی بیماری لاحق ہے۔پاکستان ایسے کم آمدن والے ملکوں پر امریکہ اور اسکے اتحای یورپی ملکوں کا دباؤ رہتا ہے کہ افغانستان کے مہاجرین کو قبول کرو۔ لیکن یہ خود مہاجرین کے لیے اپنے دروازے بند رکھتے ہیں۔ امریکہ کا ہیٹی کے مہاجرین سے موجودہ رویہ کوئی نئی بات نہیں۔ 1970میں ہیٹی میں آمرانہ حکومت برسر اقتدار آئی تو بہت سے باشندے ہجرت کرکے امریکہ پہنچے لیکن امریکہ نے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ تاریخ میں پیچھے جائیں تو ایک زمانہ تھا ہیٹی سے لوگ ہجرت نہیں کرتے تھے بلکہ امریکہ یا لاطینی امریکہ کے دوسرے ملکوں سے ہیٹی جایا کرتے تھے۔ یہ اس خطہ میں پہلا ملک تھا جہاں 1804میں فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے بعدسیاہ فام باشندوں نے ایک آزاد‘ خود مختار ریاست تشکیل دی اور غلامی کو ختم کردیا۔ اسکے بعد سے امریکہ کے سیاہ فام غلام مالکوں کے ظلم و ستم سے بھاگ کر ہیٹی میں پناہ لینے لگے۔غلامی کے خلاف امریکہ اور دیگر ملکوں میں جو تحریک چلی اس میں ہیٹی کا سرکردہ کردار تھا۔ اسی زمانے کی یادداشت سفید فام نسل پرست امریکیوں میں اب تک موجود ہے ۔ وہ ہیٹی کے لوگوں کو بہت بُرا سمجھتے ہیں۔ انہیں بدترین مخلوق بنا کر پیش کرتے ہیں کیونکہ دو صدی پہلے ہیٹی نے امریکی طاقت کو چیلنج کیا تھا۔ ہر وہ ملک اور تحریک جو انکل سام کی طاقت اوردنیا پر اُجارہ داری کو للکارے اسے بعض امریکی دانشور اور میڈیا انتہائی خراب اور گھناؤنا بناکر پیش کرتے ہیں۔ جزائر غرب الہند‘کیریبئن (ویسٹ انڈیز) کی تاریخ سفید فاموں کی بربریت کے کارناموں سے بھری ہوئی ہے جنہیں پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سینکڑوں برس تک یورپ کے سفید فام لوگوں نے افریقی باشندوں کو خرید کر انہیں غلام بنایا۔ کریبئن کے جزیروں میں ان سے جبری مشقت کے ذریعے کاشتکاری کروائی اورخوب دولت سمیٹی۔ غلاموں کو قابو رکھنے کیلیے سفید فام گشتی ٹیمیں ہوتی تھیں جو حکم نہ ماننے والے غلاموں پر بد ترین تشدد کرتی تھیں ۔ نسلی پرستی کا دور دورہ تھا۔ امریکی سلطنت اور فرانس کا ابتدائی عروج اور دولت انہی سیاہ فام غلاموں کے مرہون منت تھے۔ آج یہ دنیا بھر میں انسانیت اور انسانی حقوق کے ٹھیکیداربنے ہوئے ہیں۔امریکی سامراج نے ہیٹی کو سبق سکھانے کیلیے 1915میں اس چھوٹے سے ملک پر حملہ کیا اور تقریبا بیس برس تک اس پر قبضہ کیے رکھا جیسے بیس سال افغانستان پر مسلط رہا۔ دوسرے ملکوں کی آزادی چھیننا‘ اُن پر بزور طاقت حکومت قائم کرنا اور دوسرے ملکوں پر سیاسی دباؤ ڈالنے کیلیے انسانی حقوق کے نعرے بلند کرنا امریکی سامراج کی صدیوں پرانی تاریخ ہے۔ ہیٹی کے مہاجرین کی جبری بے دخلی اور ہیٹی کے انسانی المیہ پر امریکہ حکومت کی بے حسّی اسکے دامن پر ایک اور سیاہ دھبّہ ہے۔