ہم بات کر رہے تھے کہ انتخابی قوانین میں سے کتنے قوانین ایسے ہیں جن کی روح غیر جمہوری ہے اور جو اپنے مزاج میں بھی غیر جمہوری ہیں۔ ایسے ہی ناقص قوانین ہیں جو سیاسی بحران کی بنیاد بنتے ہیں۔ ان قوانین نے کبھی ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔یہ مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اس معاملے میں جس سوال پر بات جاری تھی وہ یہ تھا کہ فرد واحد کا اسمبلی توڑنے کا قانون کیا ایک جمہوری قانون ہے؟ اور یہ کہ قانون اس بارے بالکل خاموش ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر اسمبلی کو گھر بھیجا جا سکتا ہے؟ کوئی وجہ تو ہونی چاہیے؟ ایک جمہوری نظام میں ایسا آمرانہ اختیار کسی فرد کو کیسے دیا جا سکتا ہے کہ اگر اس کے خلاف ابھی عدم اعتماد نہیں آئی تو وہ پوری اسمبلی کو گھر بھیج سکتا ہے؟ کیا کروڑوں ووٹرز کے ووٹ کا تقدس صرف اتنا سا ہے؟ ایک ایوان کے اندر مختلف جماعتوں کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہر آدمی ایک حلقے کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ہر نمائندے کو اس کے حلقے کے ووٹرز پانچ سال کا مینڈیٹ دے کر اسمبلی میں بھیجتے ہیں۔ ایسے میں اس اسمبلی کو وقت سے پہلے تحلیل کر دینے کا کوئی جواز تو ہونا چاہیے۔ جمہوریت تو نام ہی چیک اینڈ بیلنس اور اختیارات میں توازن کا ہے ، پھر جمہوریت میں ایک شخص کو قدیم وقتوں کے مطلق العنان بادشاہوں جیسے اختیارات کیسے دیے جاسکتے ہیں کہ وہ چاہے تو بغیر کسی وجہ کے ، بغیر کسی جماعت یا قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے ، خود ہی فیصلہ کر لے اور پورے ایوان کو تحلیل کر دے؟ جمہوریت کے لبادے میں کیا یہ بھی آمریت ہی کی شکل نہیں؟ اختیارات کی یہ تقسیم کیا جمہوریت کی روح سے ہم آہنگ ہے؟ ہمارے ہاں نت نئے تجربات ہوتے رہے ، کبھی مارشل لا، کبھی صدارتی نظام ، کبھی کنٹرولڈ جمہوریت ، رہی سہی کسر نو آبادیاتی دور غلامی کے انتہائی گہرے اثرات نے پوری کر دی چنانچہ یہاں کوئی ٹھوس نظام وضع ہی نہ ہو سکا اور ہم نے ہر نظام کے ملغوبے کو گلے سے لگا رکھا ہے۔ ایک طرف ہمارے ہاں پارلیمانی جمہوریت ہے جو برطانوی ڈھانچے پر کھڑی ہے۔دوسری طرف ہمارے ہاں صدارتی نظام کی باقیات بھی موجود ہیں۔ ہم اگر ایک پارلیمانی جمہوریت ہیں تو صدر کا منصب کس لیے ہے؟ ہم اگر ایک صدارتی نظام کے تحت چل رہے ہیں تو پارلیمان کے تکلف کی کیا ضرورت ہے؟ برطانیہ پارلیمانی جمہوریت کی ماں تصور ہوتا ہے، اگر اسی کا جمہوری نظام ہم نے اختیار کیا ہے تو وہاں تو کسی صدر کا منصب نہیں ہے؟ ہم نے اسے کیوں رکھا ہوا ہے اور اس کی افادیت کیا ہے؟َ وہ کون سا رسمی کام ہے جو سپیکر قومی اسمبلی یا چیئر مین سینیٹ کے ذریعے ادا نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لیے صدر کا منصب رکھنا ناگزیر ہے؟ یہ اصل میں نو آبادیاتی گرہ ہے۔غلامی کی گرہ جو دولت مشترکہ کے بعض ممالک سے ابھی تک کھل نہیں پا رہی۔ قیام پاکستان کے وقت ہم نے عبوری بندو بست کے طور پر ایکٹ آف انڈیا 1935 کو اپنا آئین بنایا۔ اصول یہ طے ہوا کہ جب تک پاکستان اپنا آئین نہیں بنا لیتا ، تب تک ایکٹ آف انڈیا کو آئین کے طور پر نافذ العمل رکھا جائے گا۔ اس ایکٹ میں ایک رسمی سا عہدہ تھا جسے گورنر جنرل کہتے تھے۔ گورنر جنرل برطانوی بادشاہت کے نمائندے کے طور پر کام کرتا تھا۔ جیسے ہی پاکستان نے اپنا پہلا آئین بنایا ، گورنر جنرل کا منصب ختم ہو گیا۔ لیکن ہم نے اس نو آبادیاتی نشانی کو ختم تو کر دیا لیکن اسی منصب پر فائز شخص کو ہی اپنا پہلا صدر مملکت بنا لیا۔ 23 مارچ 1956 کی صبح سکندر مرزا گورنر جنرل تھے اور 23 مارچ 1956 کی شام کو وہ پاکستان کے پہلے صدر بن گئے۔ یہ ایک غیر ضروری عہدہ تھا ، ہم نے شاید پڑوس کی دیکھا دیکھی یا گورنر جنرل صاحب کو نئے نظام میں بھی ایڈ جسٹ کرنے کے کی خاطر اس غیر ضروری منصب کو آئینی طور پرمتعارف کرا دیا۔ چنانچہ جیسے گورنر جنرل غلام محمد خود کو پارلیمان سے بالاتر سمجھتے تھے ایسے ہی صدر کو خواہ مخواہ کا بندوبستی بزرگ بنا کر پارلیمان کے سر پر بٹھا دیا گیا اور تجربات شروع ہو گئے۔ کبھی صدر ہی مختار کل ہوجاتا ، کبھی 58 ٹو بی سے مسلح ہو کر وہ پارلیمان کا حشر کر دیتا ، نت نئے ان تجربات نے ہمارے قوانین کو فروٹ چاٹ بنا دیا ہے جس میں سارے ذائقے موجود ہیں۔ نو آبادیاتی بھی ، آمرانہ بھی ، صدارتی بھی اور پارلیمانی بھی۔ یہ ذائقے ہمیں اپنے آئین اور قانون میں بھی ملتے ہیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 109 کے مطالعے سے اس پہلو کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق : •گورنر صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکتا ہے۔ •گورنر جس وقت مناسب سمجھے اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکتا ہے۔ •گورنر جس مقام پر مناسب سمجھے اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکتا ہے۔ •گورنر ہی اسمبلی کے اجلاس کو prorogue کر سکتا ہے۔ الفاظ کا انتخاب اپنے اندر جہان معنی رکھتا ہے اورہمارے جمہوری مغالطوں ، الجھنوں اور تضادات کی بھی خبر دے رہا ہے۔ توجیحات بھلے جمہوری ہو سکتی ہے لیکن قانون سازی کا ذائقہ غیر جمہوری ہے۔ at such time and place as he thinks fit. ۔ اس اسلوب کلام میں جہان معنی پوشیدہ ہے۔ اور یہی وہ گرہ ہے جو ہم سے ابھی تک کھلنے میں نہیں آ رہی۔ ہماری افتاد طبع بھی آمرانہ ہے اور پارلیمانی جمہریت کا امزاج بھی آمرانہ ہے۔ ہم نے انتخابی عمل کے لیے جو قوانین بنا رکھے ہیں وہ بھی نو آبادیاتی آمرانہ طرز فکر کے عکاس ہیں۔ یہ وہی خرابی ہے جو مختلف طرز ہائے حکومت کے ملغوبے سے جنم لیتی ہے۔ پڑھنے والا پڑھتا ہے اور سوچنے بیٹھ جاتا ہے فلاں قانون کی لفاظی کی روح پارلیمانی جمہوریت کے سانچے میں ڈھلی ہے یا صدارتی افتاد طبع کی حامل ہے یا خالص آمرانہ نازو ادا لیے ہوئے ہے۔ پارلیمانی نظام کے لیے ضروری ہے قوانین کا متن ہی نہیں ان کی روح پر بھی نظر ثانی کی جائے۔ قانون کو آملیٹ نہیں ہونا چاہیے۔ اسے واضح ہونا چاہیے۔ اس میں متن اور عنوان میں تصادم نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی روح اس کی شرح سے ہم آہنگ ہونی چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ سیاست اگر چہ ہمارے معاشرے کا پسندیدہ موضوع ہے لیکن اس میں عام آدمی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سیاسی اشرافیہ نے انتخابی قوانین ایسے بنا رکھے ہیں کہ ان کے مفادات کے طلسم کدے پر کوئی آنچ نہ آئے۔ یہ قوانین کم اور انجمن مفادات باہمی کی ایک شعوری واردات زیادہ ہیں۔ معاشرہ جب تک اس مسئلے کی مبادیات کو نہیں سمجھتا سیاست سے اس کی غیر معمولی دل چسپی بھی کسی خیر کا باعث نہیں بن سکتی۔ انتخابی قوانین ناقص ادھوریا ور نا معتبر ہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ انتخابات کے بعد ہیجان تھمنے کی بجائے بڑھ جاتا ہے۔ جب تک ان قوانین میں معنوی تبدیلی نہیں لائی جاتی نہ جمہوریت مستحکم ہو سکتی ہے نہ انتخابی عمل معتبر ہو سکتا ہے۔