نبی آخرا لزماں ،رحمتِ ہر جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ہستی ہیں جو ہر زمانے کے انسان کے لیے رہنماہیں جن کی تعلیمات ہمہ گیر ، ابدی ، آفاقی اور جامع ہیں اور جن کے دیے ہوئے نظام میں ہر دور کے مسائل کا مکمل حل اور ہر بیماری کا علاج موجود ہے ۔ جسمانی یا روحانی بیماریاں ہوں یا اخلاقی امراض ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور سیرت میں ہر ایک کا شافی علاج موجود ہے ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو انسانِ کامل ہونے کی حیثیت سے دیکھا جائے یا تمام جہانوں کے لیے رحمت ہونے کے اعتبارسے یا پھر ایک ہاد ی بر حق ہونے کے لحاظ سے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے یہ تینوں پہلو ایسے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طبیبِ کامل ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔ ایک کامل انسان وہی ہو سکتا ہے جس کی زندگی ہر قسم کے عیب اورکجی سے محفوظ ہو اور وہ دسروں کے لیے ایک مثال اور نمونہ ہو لہذا اس کے شب و روز کے معمولات ، اس کا چلنا پھرنا ، کھانا پینا ، اٹھنا بیٹھنا ، آرام کر ناغرض زندگی کہ ہر کام ایسا ہو گا جو حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہو گا اورتمام جہانوں کے لیے رحمت ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ خالقِ کائنات اس ذات کے ذریعے انسانوں کو تمام بیماریوں سے شفا یاب فرمائے ۔ او ر اسی طرح ایک ایسا ہادیِٔ برحق جس کی اطاعت غیر مشروط ہو اور جو زندگی کے کسی ایک میدان میں نہیں بلکہ ہر شعبۂِ حیات میں واجب الاطاعت ہو، ضروری ہے کہ اس کی زندگی میں ہر مسئلے کا حل اور ہر بیماری کا علاج موجود ہو ۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر وہ ذات ہر دور کے انسان کے لیے اور زنذگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کا فریضہ سر انجام نہیں دے سکتی ۔ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے ان پہلو ئو ں کا جائزہ لیتے ہیں تو طبِ نبوی کی وسعت اورجامعیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب کے بار ے میں خود خالقِ کائنات نے ارشاد فرمایا: اور ہم قرآن میں وہ نازل فرماتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے ۔(الاسرائ: 82)اسی طرح حدیثِ پاک میں ہے کہ اللہ تعالی نے جو بیماری بھی نازل فرمائی ہے اس کی شفا بھی نازل فرمائی ہے ۔ جس طرح بیماریاں جسمانی بھی ہوتی ہیں اوروحانی بھی اسی طرح طبِ نبوی میں ان کا علاج ظاہری اسباب سے بھی ہے اور روحانی طریقۂِ علاج بھی موجود ہے ۔ اور اس پر کئی احادیث بھی موجود ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ ہر شب آرام کرنے سے پہلے آخری تینوں قل پڑھتے ، اپنے مبارک ہاتھوں پر دم فرماتے پھراپنے سارے جسم پر انہیں پھیر لیتے ۔ یہ معمول ام المؤمنین حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور اسے جلیل القدر محدثین نے روایت فرمایا ہے ۔ طبِ نبوی کی وسعت اورجامعیت کا اندازہ اس حدیثِ پاک سے لگایا جاسکتا ہے جس میں آپ نے فرمایا: غور سے سنو! جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہوتاہے اور جب وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے ۔ غور سے سنو! وہ ٹکڑا دل ہے ۔ کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے : سنا ہے آج وہ آئیں گے دردِ دل کے طبیب جبھی تو ہم بھی مریضوں میں آکے بیٹھ گئے طبِ نبوی کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بیماریوں کے علاج سے قبل حفظانِ صحت کے اصولوں کو اپنانے کی بڑی تلقین ملتی ہے ۔ سنتِ نبوی میں ظاہری و باطنی طہارت کے ایسے اصول اورمعمولات بیان کر دیے گئے ہیں جن کو اپنانے والا شخص تندرست رہتاہے ۔اسلام میں صفائی کو بڑی اہمیت دی گئی ہے یہاں تک کہ اسے نصف ایمان سے تعبیرکیاگیا ہے ۔ جسم ،لباس اور جگہ کی صفائی اور پاکیزگی کا حکم دیا گیا ہے ۔ جب ایک انسان اللہ کی بارگاہ میں نماز کے لیے حاضر ہو تاہے تو اس کے لیے طہارت حاصل کر نا ضروری ہے ۔ اور اس طہارت میں بدن، کپڑوں اورجگہ کی طہارت اور پاکیزگی ضروری ہے ۔ وضو اور غسل سے انسان کا جسم میل کچیل ، گندگی اورنجاست سے پاک اور صاف ہو جاتا ہے اور وہ بیماریاں پیدا کرنے والے جراثیم سے نجات حاصل کر لیتا ہے ۔اسی طرح کپڑوں اورجگہ کی صفائی سے بھی گندگی سے بچنے کا درس ملتا ہے ۔صفائی کایہ حکم محض وضواورغسل تک ہی محدود نہیں بلکہ غیر ضروری بالوں کی صفائی اور ناخنوں کوکاٹنے میں بھی یہی حکمت کارفرما ہے کہ اس طرح انسان نجاست اور گندگی سے پیداہونے والی بیماریوں سے محفوظ رہتاہے ۔ اسی طرح جب ایک انسان دن میں پانچ مرتبہ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں چل کر جاتا ہے اورنماز ادا کرتا ہے ، کبھی قیام کرتا ہے ، کبھی رکوع کی حالت میں جھک جاتا ہے اور کبھی سجدے کی شکل میں اپنی پیشانی زمین پر رکھتا ہے اور کبھی دو زانو ہو کر بیٹھ جاتاہے تو عبادت کے ساتھ ساتھ اس کی ورزش بھی ہو جاتی ہے اوراس کا جسم بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتاہے ۔ اگرہم طبِ نبوی کے اسی پہلو پر غور کریں کہ اس میں بیماریوں سے شفا حاصل کرنے کے طریقوں سے قبل حفظانِ صحت کے اصولوں کو روزمرہ کامعمول بنادیا گیا ہے تو ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق سر انجام دیے ہوئے ہر کام میں ہی طبِ نبوی کایہی اصول کارفرما نظرآئے گا۔ طبِ نبوی کا وہ حصہ جس میں مختلف بیماریوں سے شفا کے لیے ہدایات دی گئی ہیں اس کے متعلق کچھ عرض کرنے سے پہلے اگرہم طبِ نبوی کے اسی پہلوپر غور کر لیں تو طبِ نبوی کی وسعت کا اندازہ ہوتاہے اور یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے سے انسان مختلف بیماریوں سے بچ جاتا ہے ۔الغرض طبِ نبوی ایک وسیع موضوع ہے جس پر بہت سی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم اپنی زندگی کو سنتِ نبوی کے مطابق بنائیں اور اپنے شب و روز کے معمولات میں نبوی طریقے کی پیروی کریں تاکہ ہم مختلف بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں ۔ اورحقیقت یہ ہے کہ : طبیبا! مکن فکرِ مرضِ مریضاں کہ مارا شفا گردِ کوئے محمد اے طبیب ! تو بیماروں کی بیماری کی فکر نہ کر کہ ہمار ے لیے کوئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گرد میں بھی شفا ہے ۔