اسلام آباد( عمران وسیم ) ملک کی تین ہائیکورٹس نے انصاف تک رسائی کے آئینی حق کی مکمل پاسداری نہ ہونے کا اعتراف کر لیا،سپریم کورٹ میں فراہی انصاف میں بہتری کے مقدمہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ،سندھ ہائیکورٹ،پشاورہائیکورٹ کے جوابات جمع کرا دیئے گئے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری جواب میں تسلیم کیا کہ لوگوں کے انصاف تک رسائی کے آئینی حق پر مکمل عمل نہ ہونا سنجیدہ معاملہ ہے ،انصاف تک رسائی فراہم کرنے کی اولین ذمہ داری عدلیہ کی ہے ۔رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جمع جواب میں موقف اختیار کیا گیا کہ نظام انصاف کو بتدریج درست کرکے عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ فراہمی انصاف میں بہتری کیلئے سندھ جوڈیشل اکیڈمی،جرمن حکومتی ادارے اور نجی برطانوی ادارے کے ساتھ ملکر فوجداری مقدمات میں فوری انصاف کے روڈ میپ کے قواعد پر کام کیا جا رہا ہے ۔رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ انصاف تک رسائی کے بنیادی حق پر عمل نہ ہونا قابل تشویش ہے ۔وقت کی ضرورت ہے کہ مقدمات کی بڑھتی تعداد کے ساتھ عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔جواب میں رجسٹرار نے تسلیم کیا کہ مقدمات میں فیصلوں کیلئے سائلین کو لا محدود وقت تک انتظار کرنا پڑتا ہے ۔لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ تین سال میں تین کیسز میں درخواست گزاروں کو جھوٹی مقدمہ بازی کرنے پر پچاسی ہزار جرمانہ کیا ہے بے گناہ لوگوں کو جھوٹی مقدمہ بازی میں پھنسانے پر کسی کے خلاف کاروائی کا حکم نہیں دیا گیا،ماتحت اور انتظامی عدالتوں ( ٹریبونلز) نے سات ہزار چار سو اکانوے جھوٹے مقدمات میں 18 کروڑ سے زیادہ جرمانہ کیا جو متاثرہ سائلین کو ادا کیا گیا اس کے علاوہ 90 جھوٹے مقدمات کے درخواستگزاران کے خلاف کاروائی شروع کی گئی۔درخواست گزار عمر گیلانی نے 92نیوز سے گفتگو میں کہا ہے کہ تمام ہائی کورٹس کے جوابات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ لوگوں کو فوری اور سستے انصاف کا بنیادی حق نہیں مل رہا، عدالتی اصلاحات ناگزیر ہیں۔