لاہور (خصوصی رپورٹ) پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے شوگر بحران کے حوالے سے وفاقی حکومت کی طرف سے انکوائری رپورٹ کے اجرا کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس اہم قومی معاملے پر حقیقت پسندانہ تجزیئے اور بحث کی ضرورت ہے لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ رپورٹ کے ایک حصے کو غیرضروری طور پر اچھال کر کنفیوژن اور سنسنی پھیلائی جا رہی ہے جو گنے کے کاشتکاروں، شوگر ملزمالکان اور چینی کے صارفین کے علاوہ قوم کے ساتھ زیادتی ہے ۔ چیئرمین نے کہا کہ تحقیقاتی کمیٹی نے شوگرا نڈسٹری کے موقف کو سنجیدگی سے سنا مگر رپورٹ کی تیاری سے قبل ان حقائق پر توجہ نہ دی جو شوگر کے کاشتکاروں اور شوگرملز کے باہمی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاستی قوانین کے تحت کسی بھی شعبے کو سبسڈی دینا غلط ہے نہ کسی شعبے کا سبسڈی لینا معیوب ۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے 2018 میں شوگر کی ایکسپورٹ پر سبسڈی دینے کا فیصلہ اس وقت کیا ۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ شوگر ملز کے سٹاک میں چینی وافر مقدار میں موجود ہے اور اگر یہ برآمد نہ کی گئی یا ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان سے نہ خریدی تو گنے کی نئی کرشنگ شروع نہیں ہو پائے گی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا اور زمینی حقائق کے مطابق سبسڈی دینے کی منظوری دی، پھر ایک لاکھ ٹن مزید چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی جس سے ملک کو ڈالروں کی صورت میں زرمبادلہ حاصل ہوا۔ ایک لاکھ ٹن برآمد کی اجازت دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان نے یہ چینی خریدنے سے انکار کردیا تھا ۔ چینی کی برآمد اور سبسڈی سے گنے کے کاشتکاروں کو براہ راست فائدہ پہنچا جبکہ کرشنگ نہ ہونے کا سراسر نقصان کاشتکاروں کو ہوتا۔ صرف تین ارب روپے کی سبسڈی دیکر حکومت نے پچاس ارب روپے کازرمبادلہ کمایا جو ریکارڈ کی بات ہے ۔چیئرمین نے رپورٹ میں حقائق کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف چینی کی برآمد کو ایکس مل فروخت میں51/64 روپے سے 59/63 روپے اضافہ کی وجہ قرار دیا گیا ہے ۔ دوسری طرف 2018/19 میں گنے کی قیمت خرید180 روپے فی من کو چینی کی پیداواری لاگت63/59 سے زیادہ قرار دیا گیا ہے اگر فاضل چینی برآمد نہ کی جاتی تو کسان اور مل مالکان دونوں خسارے میں رہتے اور ملکی منڈی میں قیمت فروخت کسان کو گنے کی قیمت خرید بھی ادا کرنے کے قابل نہ تھی۔پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے کی ایکسپورٹ پالیسی کی وجہ سے شوگر ملز کے لیے کام کرنا مشکل بلکہ ناممکن تھا اور کسان بھی بدحالی کا شکار ،سابق حکومت نے اپنے دور میں چینی کی برآمد پر پابندی لگا دی جس کا براہ راست نقصان گنے کے کاشتکار کو تھا۔ جس وقت موجودہ حکومت نے ایکسپورٹ کی اجازت دی، اس وقت چینی کی پیداواری لاگت 60 روپے فی کلوگرام تھی مگر مارکیٹ میں فاضل سٹاک کی وجہ سے پیداواری لاگت سے 10 روپے کم یعنی 50 روپے پر فروخت ہو رہی تھی ۔ جس کے باعث شوگرمل مالکان نے حکومت کی طرف سے اس یقین دہانی کے بعد کہ چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی جائے گی کیونکہ اردگرد کے تمام ممالک بھارت، سری لنکا وغیرہ میں چینی کی قیمت زیادہ ہے ، گنے کی کرشنگ شروع کی جس سے کاشتکار نے سکون کا سانس لیا۔ 2019-20 میں کرشنگ کے دوران ملز کو گنا 190 روپے کی امدادی قیمت کی بجائے 250 روپے فی من تک فروخت کیا گیا جو ریکارڈ کی بات ہے ۔ موجودہ حکومت کو داد دینی چاہیے کہ اس نے گنے کی کاشت، فروخت اور چینی کی برآمد میں توازن پیدا کیا۔ 2019/20 میں کاشتکاروں کو مقررہ امدادی قیمت سے بھی70 ارب روپے زیادہ وصول ہوئے ۔ چیئرمین نے کہا کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن اپنا تفصیلی مؤقف رپورٹ کا گہرائی سے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد پیش کریگی۔ انہوں نے میڈیا سے اپیل کی کہ وہ محض چند سیاسی افراد کی وجہ سے شوگر ملز اورگنے کے کاشتکاروں کے علاوہ ریاست کو حاصل ہونے والے فوائد کو پس پشت نہ ڈالیں اورکسی منفی پراپیگنڈے کا شتکار نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ سبسڈی حکومت نے دی اور کاشتکاروں اور قوم کے مفاد میں دی، اس پر شوگر مل مالکان کو مجرم ٹھہرانا قومی خدمت نہیں۔