ہمیں کیا معلوم تھا کہ بدعنوانی کے خاتمے اور بدعنوانوں کو پکڑنے اور سزا دینے کا عزم رکھنے والی حکومت کے ایک وزیر صاحب بھی بدعنوان نکلیں گے۔ بدعنوانی میں اتنے طاق ہوں گے کہ چھوٹی سی مدت میں کروڑ پتی سے ارب پتی بن جائیں گے۔ مایا تیرے تین نام پرسو، پرسا، پرس رام۔ سادھو، سنت، بھکشو، پنڈت اور صوفی سبھی دنیا اور دولت دنیا کو مایا کہتے ہیں۔ یعنی یہ سب ایک دھوکا ہیں۔ مگر آدمی بھی خوب شے ہے زبان سے دنیا کو دھوکے کی ٹٹی کہتا ہے اور عملاً گردن تک دنیا اور محبت دنیا میں ڈوبا رہتا ہے جن وزیر صاحب نے بدعنوانی کی بہتی گنگا میں بے تکلفانہ ہاتھ دھوئے ہیں۔ (بے تکلفانہ اس لیے کہ سنا ہے وزیراعظم کے منہ چڑھے ہیں) انہیں تو پتا بھی نہ ہوگا کہ دنیا اور مال و دولت کی محبت کیا ہوتی ہے اور یہ کس طرح اچھے بھلے آدمی کو خراب کرتی ہے۔ رہی بات عاقبت کے خراب ہونے کی تو اس کا اعتبار ہوتا تو ایک دھیلے کا ہیر پھیر کرتے ہوئے ہاتھ کانپ کانپ جاتا کہ موت کے بعد خدا کو کیا منہ دکھائوں گا۔ ایک ان ہی وزیر صاحب پر کیا موقوف، پورے معاشرے میں دولت کی جو چھینا چھپٹی ہورہی ہے، ہیر پھیر اور ہندسوں کا جو الٹ پھیر ہے اسی کی وجہ ہی خدا کی جواب دہی کے احساس سے محرومی ہے۔ اب تو آخرت کی باتیں بھی مولویانہ لگتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ آخری سانس نکلے گی تو نماز مولوی صاحب ہی پڑھائیں گے اور نجات کی دعائیں بھی مولوی صاحب ہی رقت سے مانگیں گے۔ ہمیں ان وزیر صاحب کی بدعنوانی پر حیرت نہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ایسے ایسے وزیروں کو کابینہ میں رکھ کر وزیراعظم صاحب ملک کو مدینہ کی ریاست بنانے کس منہ سے چلے ہیں۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ ایک کالم نگار نے لکھا ہے کہ وزیراعظم نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے صحافیوں اور اپنے ہی وزیروں سے مصافحہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ وزیروں کو بھوکا پیاسا رکھ کر خزانے کی حفاظت کرنے کا خیال اتنا پاکیزہ اور مقدس ہے کہ لوگوں نے امیدیں باندھ لی ہیں کہ جلد ہی ملک قرضوں کے بوجھ سے آزاد ہو جائے گا۔ چاہے مہنگائی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہی کیوں نہ ہوتا رہے۔ عوام بھی ایسی باتیں دیکھ کر سوچتے ہیں کہ اگر کابینہ کے وزراء بھوکے اور پیاسے اجلاس اٹینڈ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں گرانی کی شکایت کریں۔ اب یہی دیکھیے کہ چائے کا تذکرہ ہوا اور ہمیں طلب ایسی ہوئی کہ ہم نے قلم روکا اور کچن سے چائے بنا کرلائے اور اب دوبارہ لکھنے بیٹھ گئے۔ ہم اگر ایسا نہ کرتے تو کالم لکھنا ہی محال ہو جاتا۔ وزیراعظم اصل میں کپتان ہیں، ساری زندگی کرکٹ کھیلی۔ کھیل کود میں مصروفیت میں اتنی مہلت ہی نہ ملی کہ انسانی فطرت اور انسان کے مزاج اور نفسیات کو سمجھنے میں کچھ وقت لگاتے۔ اگر وہ ایسا کرلیتے تو یہ جاننا مشکل نہ تھا کہ انسانوں سے کام کیسے لیا جاتا ہے اور نمٹا کیسے جاتا ہے۔ کہاں یہ نرمی اور کہاں گرمی برتنی چاہیے۔ گرمی پہ یاد آیا کہ وزیراعظم کا بچت کا یہی طریقہ رہا تو کہیں وہ کابینہ کے اجلاس کے دوران میٹنگ روم کا اے سی نہ بند کروادیں کہ بجلی کی بچت بھی ضروری ہے۔ لائٹ تو تکنیکی وجوہ سے بند نہیں کرا سکتے کہ اندھیرے میں بچت کرنے اور غربت دور کرنے کے فیصلے ذرا مشکل ہی سے ہوں گے۔ واللہ ہمیں وزیراعظم کی نیت اور نیکی پر ادنیٰ سی بھی شک نہیں۔ وہ سچ مچ تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور بہ قول ان کے تبدیلی آئی نہیں آ چکی ہے۔ بس اتنا سوچنے کی دیر ہے کہ تبدیلی کسے کہتے ہیں۔ ایک تبدیلی وہ ہے جو اندر سے آتی ہے دوسری وہ جو باہر سے لائی جاتی ہے۔ پائیداری کس میں ہوتی ہے۔ ہم کوئی ماہر نفسیات نہیں کہ اس راز پر سے پردہ اٹھائیں لیکن تھوڑا بہت جو کتابوں میں پڑھا ہے اور دیکھا سنا ہے اسی سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ تبدیلی وہ جو انسان کے اندر آئے۔ کیونکہ باہر جو کچھ ہوتا ہے، اس کا بیج اندر ہی چھپا ہوتا ہے۔ اگر اندر ببول کا بیج ہو گا تو باہر ببول ہی کا درخت اُگے گا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو کیا پہلے یہ ضروری نہیں کہ وزیراعظم اندر گلاب کا پودا لگائیں تاکہ باہر گلاب کا پھول نکلے۔ مطلب یہ کہ شفقت، نرمی، درگزر اور پیار و محبت سے کام لیں۔ انسان ان ہی رویوں سے بدلتا ہے۔ سختی کا رویہ دوسرے کو ہٹ دھرم بناتا ہے۔ زبان پہ ’’یس سر‘‘ اور اندر ’’نہیں نہیں‘‘ کہتا رہتا ہے۔ نصیحت کرنا اور وہ بھی وزیراعظم کو نصیحت کرنا نہ ہمارا کام ہے اور نہ مقام۔ ایک بات سمجھ میں آئی سو عرض کر دی۔ باقی سمجھانے بجھانے کے لیے انہیں شیخ رشید میسر ہیں۔ جذبہ تو شیخ صاحب کا قابل رشک ہے۔ اللہ یہ جذبہ ہمارے جملہ سیاست دانوں میں پیدا کرے۔ یہ سب جہاد پر جائیں تو قوم کو شاید یہ خلا پر کرنے کے لیے کچھ کام کے سیاست دان مل جائیں جو صرف بیان بازی نہ کریں۔ عمران خان کرکٹر کی طرح ہسپتاب بنائیں، یونیورسٹیاں تعمیر کریں۔ کچھ تو ایسا کریں جس کے کرنے کے لیے وزیراعظم ہونا ضروری نہ ہو۔ ہمارے سیاستدانوں کو تو باتیں بنانے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں اور آتا ہو تو کرتے نہیں۔ یہ بھی ایک قسم کی بیروزگاری کی شکل ہے۔ کیونکہ بیروزگاری میں آدمی باتیں بنانے اور شکوہ شکایت کرنے کے سوا کچھ کرتا ہی نہیں۔ جس طرح جماعت اسلامی والے اور کسی زمانے میں ایم کیو ایم نے شہریوں کے لیے الخدمت اور خدمت خلق جیسے ادارے بنا کر میت گاڑیاں چلوا رکھی تھیں، جماعت کی گاڑیاں تو اب بھی چل رہی ہیں، ایم کیو ایم کا نہیں پتا کہ ان کی گاڑیاں سڑکوں سے کہاں غائب ہو گئیں۔ تاہم یہ اچھے کام تھے جو دوسری جماعتوں کو بھی کرنے چاہئیں۔ مثلاً ایک پارٹی روزگار فراہم کرنے دوسری پارٹی ضرورت مندوں کی امداد یا قرضے فراہم کرنے، تیسری پارٹی کچی بستیوں میں سکول کھولنے اور تعلیمی ادارے قائم کرنے کا کام سنبھال لے تو عوام میں ان کی ہر دلعزیزی بھی بڑھے گی اور حکومت کا بوجھ بھی ہلکا ہوگا۔ قوم و ملک کی تعمیر مل جل کر ہی ہو سکتی ہے۔ لڑائی جھگڑے اور دھینگا مشتی جو صوبائی اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں ہوتی رہتی ہے جنہیں دیکھ کر او رپڑھ کر سوچنے سمجھنے والے لوگ سر پٹ لیتے ہیں کہ عوام نے کس قسم کے سیاست دانوں کو پارلیمنٹ میں بھیج دیا ہے۔ ویراعظم کوبھی سوچنا چاہیے کہ نئے پاکستان کی تعمیرو تبدیلی ان کے اکیلے کا کام نہیں۔ اس کام میں دوسری پارٹیوں کو بھی شریک کرنا چاہیے۔ اس کا تجربہ ان سے زیادہ کس کو ہوگا کہ جس طرح شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کا ارادہ انہوں نے کیا لیکن اس کے قیام میں دوسروں نے حصہ لیا تو اس کا وجود ممکن ہوا۔ ملک کو بھی ایک ایسا ہی پراجیکٹ سمجھنا چاہیے۔ سب اس کی تعمیر میں حصہ لیں گے تو نیا پاکستن بنے گا ورنہ محاورہ یہی ہے کہ اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا۔