شاعری کیا ہے؟ یہ سوال جب ایک انگریز مفکر کے سامنے آیا تو اس نے عجیب جواب دیا۔ اس نے کہا کہ ’’اگر تم مجھ سے مت پوچھو کہ شاعری کیا ہے تو میں جانتا ہوں اور اگر تم نے مجھ سے پوچھا کہ شاعری کیا ہے تو پھر میں اس کا یہی جواب دے سکتا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ شاعری کیا ہے؟‘‘شاعری کی سب سے آسان اور سب سے مشکل بات یہ ہے کہ شاعری کوئی سالن یا کوئی بریانی نہیں ہے کہ اس کی کوئی ریسیپی ہو۔ حالانکہ شاعری ایک فن بھی ہے مگرشاعری کا فن یا علم عروض جاننے والا ہر شخص شاعر نہیں ہو سکتا۔اس لیے ادب کی دنیا میں شاعری کو ایک دین سمجھا جاتا ہے۔ وہ دین جس کو ملے۔ تاریخ نے بادشاہوں اور امیروں لوگوں کو اس دین سے محروم دیکھا ہے اور وہ دین غریب اور فقیر لوگوں کے پاس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی حیرت میں کھو جائے کہ اس غریب کے پاس شاعری کی امانت کس طرح آئی؟ شاعری کوئی فارمولہ نہیں ہے۔ شاعری میں تجنیس حرفی بھی ہوتی ہے۔ شاعری میں قافیہ بندی بھی ہوتی ہے۔ مگر بقول مرزا غالب ’’قافیہ بندی شاعری نہیں ہے‘‘ شاعری میں ایک طرح کا جوش بھی ہوتا ہے۔ شاعری میں ولولہ بھی ہوتا ہے۔ شاعری میں امید بھی ہوتی ہے۔ مگر جس شاعری میں درد نہیں وہ شاعری دل کو نہیں چھو سکتی۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ شاعری درد کی میراث ہے۔ غم شاعری کی روح ہے۔ غم کے بغیر شاعری ایسی ہے جیسے نمک کے بغیر طعام! اور اگر شاعری کو زبان بھی درد سے بھری ہوئی ملے تو پھرسونے پر سہاگہ جیسی بات ہو جاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بنیادی طور پر ایک سیاستدان تھے مگر ان کے ادبی ذوق سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ بھٹو صاحب کو سندھی اردو اور انگریزی کے علاوہ اور کتنی زبانوں پر عبور تھا مگر انہوں نے اپنے مقدمے کے دوراںآخر میں کا تھا کہ ان کی جو اس وقت کیفیت ہے وہ صرف اس ملک کی ایک زبان میں بیان ہو سکتی ہے اور زبان ہے سرائکی!اس لیے انہوں نے اپنے دفاع میں دیے جانے والے بیان کے آخر میں کہا تھا: ’’نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی وکیل ہے درداں دی ماری دلڑی علیل ہے‘‘ سرائکی شاعری میں جو درد ہے اور جو رنج ہے سرائیکی شاعری میں جو فراق کی خوشبو ہے، وہ ہمارے ملک کی دوسری زبانوں میں نہیں ہے۔ حالانکہ سندھی زبان کو محبت کی زبان کہا جاتا ہے۔ سندھی زبان محبت کی زبان ہے مگر ہم سندھی زباں کے مقابلہ سرائیکی زباں سے نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ سرائیکی زبان میں جو درد ہے وہ بہت معصوم ہے۔ سرائیکی شاعری کی بات مجھے اس لیے یاد آگئی کیوں کہ چند دنوں سے سرائیکی زباں کے مشہور شاعر شاکر شجاع آبادی کی جو کسمپرسی والی ویڈیو تھی وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی تھی اور اس ویڈیو کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن کو اس غریب شاعر کی یاد آئی جو سرائیکی وسیب کے عوامی درد کی علامت ہے۔ہماری سیاست اور سرکار میں یہ بے حسی کیوں کہ جب تک کوئی دکھ کوئی درد وائرل نہیں ہوتا تب تک کسی کو کسی مظلوم اور غریب کی یاد نہیں آتی۔ اب شاکر شجاع آبادی کو فون بھی آ رہے ہیں اور سابق حکمران ان سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اب ایک غریب شاعر پر سیاست ہونے لگی ہے۔ وہ شاعر جس نے پوری زندگی مال و دولت نہیں بنائی۔ وہ شاعر جس نے کوئی کوٹھی کوئی کار نہیں خریدی۔ وہ شاعر جس نے ساری زندگی صرف اور صرف دکھ کو الفاظ میں پرویا۔آخر ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو ان کی شاعری کی وجہ سے ان کی یاد کیوں نہیں آئی؟اس ملک میں سرکار کی سرپرستی میں چلتے ہوئے ادبی ادارے ہیں۔ ان کا بجٹ کروڑوں میں ہے۔ مگر ان اداروں کو اس شاعر کی یاد تک نہیں آئی جس شاعر نے لکھا ہے: ’’ہر وار اے شاکر ممکن نئیں/توں جھڑکیں تے میں ول آواں‘‘ شاکر شجاع آبادی کے اس شعر میں جو شکایت ہے۔ اس شعر میں جو انا ہے۔ وہ کسی اور شاعر کے شعر میں تلاش کرنا محال ہے۔ یہ اشعار بھی شاکر شجاع آبادی کے ہیں: ’’جے شاکر سامنے نئیں ملدا ساکو خواب اچ ملن گوارا کر‘‘ مجھے شاکر شجاع آبادی کے شاعری سے متعارف کروانے والا شخص میرا دوست غفار نیازی تھا؛ جب اس نے مجھے شاکر کی شاعری اپنے مخصوص انداز کے ساتھ سنائی تو مجھے ایسا لگا کہ دور صحرا میں کوئی درد سے بھری ہوئی بین بجا رہا ہے۔ غفار صاحب کی معرفت مجھے معلوم ہوا کہ شاکر کی شاعری میں اندر کے ارمان ہیں۔ شاکر کی شاعری میں کوئی گمان نہیں ہے۔ شاکر کی شاعری میں کوئی ماتم نہیں ہے۔ شاکر کی شاعری میں تو صرف شکایت ہے۔ اس بات کو بھی غور لائق سمجھنا چاہئیے کہ شکایت ہمیشہ اپنوں سے کی جاتی ہے۔ شاکر کی شاعری صرف اداسی کی روایت سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔ شاکر کی شاعری ان موضوعات کو بھی چھوتی ہے جو ہمارے نام نہاد دانشوروں کا جدید موضوع بحث ہے۔ جب نسوانی تحریک ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگاتی ہے تو وہ شاکر اپنی شاعرانہ رائے پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’نہ جسم تیڈا؛ نہ جان تیڈی/اے ترکہ رب رحمان دا ہے/اوندے حکم بغیر تو بے وس ہیں/اے فیصلہ پڑھ قرآن دا ہے/میڈے جسم تے مرضی میڈی اے/اے وہم گمان انسان دا ہے/ تیڈی روح ہے شاکر مالک دی/تیڈا ڈھانچہ قبرستان دا ہے‘‘ کیا کسی شاعر نے اور وہ شاعر بھلے اردو یا انگریزی میں شاعری کرے؛ کیا اس کی شاعری کی معراج ایسے مناظر دکھا سکتی ہے؟ شاکر کی شاعری میں جو بغاوت ہے۔ وہ بغاوت کسی دوسرے شاعر کی قسمت میں نہیں آئی۔ ہم نے بڑے بڑے شاعروں کوپڑھا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ شاعری کو کس طرح ترقی کی سیڑھی بنایا گیا ہے۔ اور تو اور شاکر کی شاعری کو جدید سوشل میڈیا پر سجا کر پیش کرنے والے بھی بہت کما رہے ہیں۔ مگر ایک غریب شاعر کو کیا ملا؟ اس عمر اور اس صحت میںتنگ دستی؟شاعرو ں کو صرف انٹرٹیمنٹ کا ذریعہ سمجھنے والوں کو یہ بات بھی سمجھنی چاہئیے کہ یہ ملک جو ہم نے حاصل کیا وہ بھی ایک شاعر کا خواب تھا۔ جس معاشرے میں شاعر کی عزت نہیں ہوتی وہ معاشرہ بحرانوں کی نظر ہوجاتا ہے۔ اس معاشرے سے توازن چھوٹ جاتا ہے۔ شاکر شجاع آبادی کی شاعری صرف شاعری نہیں ایک آئینہ ہے۔ ہم اس آئینے میں اپنی صورت دیکھ سکتے ہیں۔ ہم اس شاعری کی آئینے میں وسیب کے درد کا درشن کر سکتے ہیں۔ شاکر کی شاعری ایک فرد کے دکھ درد کی کہانی نہیں ہے۔ شاکر کی شاعری تو وسیب کا پورا درد سیمٹ کر اظہار کرتی ہے۔