پیشگی معذرت چاہوں گا کہ میں نے اپنے کرئیر میں اس قسم کا تنازعات سے بھرا الیکشن نہیں دیکھا۔ جس میں کبھی ایک جماعت کے عہدیداروں کو نکال باہر کیا جاتا ہے، تو کبھی اُسی جماعت کے اراکین کی پکڑ دھکڑ پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ،، اور تو اور کبھی اُس کے انٹرا پارٹی الیکشن کو ہی غیر قانونی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جاتا ہے ،کبھی اُس سے انتخابی نشان ہی واپس لے لیا جاتا ہے۔ جسے بعد ازاں عدالت عالیہ کے حکم پر واپس کیا جاتا ہے۔ ویسے ہم نے اپنی زندگی میں بہت سے الیکشن کمیشن دیکھے، جنہوں نے ڈکٹیٹر شپ کے دوران بھی الیکشن کروائے مگر موجودہ الیکن کمیشن جیسا شاید ہی کوئی ہو۔جب ایسے حالات میں الیکشن ہوں تو کیا اگلے پانچ سال کیلئے بننے والا سسٹم چل سکتا ہے؟ آپ اپنے برادر ملک بنگلہ دیش کی مثال لے لیں۔ جہاں 2009سے بنگلہ دیش عوامی لیگ (BAL) برسر اقتدار ہے، شیخ حسینہ واجد وزیر اعظم ہیں جبکہ وہاں کی مقبول جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) مقبول ترین جماعت ہونے کے باوجود اپوزیشن میں ہے۔ اس جماعت کی چیئرپرسن خالدہ ضیا ہیں۔ یعنی اعدادو شمار کے مطابق بی این پی کی مقبولیت کا گراف42فیصد، جبکہ عوامی لیگ کا گراف 24فیصد ہے۔ عوامی لیگ نے ان 14سالوں میں ہر حربہ استعمال کیا کہ بی این پی کی مقبولیت کم ہو جائے مگر وہ ہر گزرتے دن بڑھتی گئی اور اب جبکہ اگلا الیکشن اگلے مہینے یعنی جنوری2024ء میں طے ہے تو اس وقت بھی بی اے ایل ہر طریقہ آزما رہی ہے کہ وہ کسی طرح یا تو الیکشن کے التوا کی طرف جائے یا کسی بھی طرح بی این پی کے رہنمائوں کی کردار کشی کر کے اُنہیں غیر مقبول کیا جائے۔ لیکن بظاہر وہ ایسا کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں ایک ٹولہ جسے پاکستان پر زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے، چاہتا ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہو جائے ، اس دوران اس جماعت کی قیادت پر سینکڑوں مقدمات درج کیے گئے ہیں، مگر مقبولیت ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ کیا کسی کو 2013کے الیکشن یا د نہیں جب مذکورہ جماعت نے دھاندلی کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا اور پھر یہ مہم اگلے پانچ سال تک جاری رہی۔ کیا کسی کو علم ہے کہ اس دوران ملک نے کتنا Sufferکیا تھا؟ اگر نہیں معلوم تو میں بتاتا چلوں کہ ایک اندازے کے مطابق ملک کو 60ارب ڈالر کا نقصان اور کئی انویسٹرز نے ملک سے منہ موڑ لیا تھا؟ تو کیا الیکشن کمیشن اسی قسم کے انتخابات کروا کر اگلے پانچ سال کی پر تشدد سیاست چاہتا ہے؟میرے خیال میں اگر فیصلہ کرنے والوں کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ اگر فری اینڈ فیئر الیکشن کروائے جائیں تو ایک خاص جماعت آگے آسکتی ہے،،، یا دوسری طرف آپ یہ کہہ لیں کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو یقین نہیں ہے کہ عوام انہیں ووٹ دیں گے اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ کسی طرح عمران خان کو فارغ کروایا جائے۔ تو کیا یہ کوئی اچھی اور جمہوری روایت ہے ؟ خیر بات ہو رہی تھی الیکشن کمیشن کی تو دنیا بھر میں الیکشن کمیشن کا کام ہی اس پورے سسٹم پر نظر رکھناہوتا ہے لیکن یہاں دبائو کام کرجاتا ہے، جیسے کئی رہنمائوں کے معاملے نے کئی مشکوک راہیں کھول دی ہیں کہ نااہل شخص بھی الیکشن کے لیے کاغذات جمع کروا رہا ہے جبکہ دوسری جانب ابھی جن کے مقدمات کے فیصلے بھی نہیں ہوئے اُنہیں ڈس کوالیفائی کیا جار ہا ہے۔ میرے خیال میںاس سے بھی الیکشن کمیشن کی خاصی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ خیر یہ دبائو کی ایک چھوٹی سی مثال ہے، کسی کو علم نہیں کہ الیکشن کمیشن کس کے دبائو میں ہے کیوں کہ دنیا بھر میں الیکشن کمیشن بارعب ہوتا ہے۔ اُس سے حکومت سمیت تمام ادارے خوف کھاتے ہیںکہ کہیں وہ اپنے اختیارات استعمال نہ کر لے لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے۔ الغرض ہمارے ہاں الیکشن کمیشن تونرسری کا طالب علم لگتا ہے، جسے والدین مکمل حقوق دینے سے ڈرتے ہیں۔ یقین مانیں یہ بھی الیکشن کمیشن ہی کی بدولت ہے کہ یہاں کوئی بھی وزیر مشیر الزام لگنے کی صورت میں کام کرتا رہتا ہے، ورنہ مہذب ملکوں میں تو کسی پر الزام لگ جائے تو وہ اپنی سیٹ سے مستعفی ہوجاتا ہے اور الزام کے ختم ہونے تک کوئی بھی پبلک عہدہ حاصل نہیں کرتا۔ اس کے برعکس یہاں جس پر سیکسوئل ہراسمنٹ کا کیس بھی چل رہا ہوتو اُسے سفیر بنا دیتے ہیں، اُسے پرائڈ آف پرفارمنس کا ایواڈ بھی دے دیتے ہیں اور من چاہے تو اُسے وزارت اور مشاورت جیسے عہدے بھی دیے جاتے ہیں، اگر عوام اس پر شکوہ کریں تو بہلا دیا جاتا ہے کہ آپ غلط ہیں۔ بقول غلام مصحفی ہمدانی دیکھ کر ہم کو نہ پردے میں تو چھپ جایا کر ہم تو اپنے ہیں میاں غیر سے شرمایا کر بہرکیف سب کو مل کر الیکشن کمیشن کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے،ہمارے ہاں مسئلہ یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس بھارتی طرز پر مستقل عملہ نہیں ہے جو فری اینڈ فیئر الیکشن کروائے۔ الیکشن میں ہر بار مانگے تانگے کا عملہ آتا ہے، مہم کے دوران ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے، الیکشن کے دن تصادم ہوتے ہیں اور نتائج کے وقت ایک علیحدہ جھگڑا منتظر ہوتا ہے۔تینوں بڑی پارٹیوں پی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کو حکومت مل چکی ہے۔ کسی ایک نے بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ الیکشن کے عملی انتظام کو شفاف اور منظم بنایا جائے۔ وجہ اس کی صاف ظاہر ہے اور وہ ہے اقتدار میں آنے کے بعد یادداشت کا متاثر ہونا۔ یہ یادداشت اس لیے متاثرہوتی ہے کہ اقتدار میں جب تمام ریاستی وسائل پاس ہوں تو بیچارہ الیکشن کمیشن جس کی اپوزیشن کے دور میں بہت اہمیت محسوس ہوتی ہے، یاد ہی نہیں آتا۔خیر الیکشن کے انعقاد کے علاوہ نتائج پر مقدمہ بازی ایک اور طویل سلسلہ ہوتا ہے۔ الیکشن ٹریبیونلز میں انتخابی عذرداریوں کے طے ہونے میں برسوں بیت جاتے ہیں اور اکثر تو نیا الیکشن آجاتا ہے اور درخواستوں کا فیصلہ نہیں ہوتا۔پھر ووٹر لسٹوں اور حلقہ بندیوں کا کام سارا سال جاری رہتا ہے۔ نادرا اور مردم شماری کا اس میں واضح کردار ہے۔ الیکشن والے روز اور انتخابی مہم میں زیادہ کام پولیس اور ضلعی انتظامیہ کا ہے۔ انڈیا میں تمام مقامی انتظامیہ الیکشن کمیشن کے تابع چلے جاتی ہے۔وہاں نگران کابینہ کا بھی تصور نہیں اور الیکشن انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کرواتے ہیں۔ قصہ مختصر انتخابات جمہوریت کی اساس ہوتے ہیں اور جمہوریت ریاست کی بنیاد ہے۔ الیکشن کمیشن وہ آئینی ادارہ ہے جس کے ذمے الیکشن کا انتظام ہے، اور کچھ نہ سہی پچھلی کئی دہائیوں سے باقاعدہ عام الیکشن بھی ہورہے ہیں۔لہٰذاالیکشن کمیشن کو انقلابی تبدیلیوں کے لیے بولڈ اقدامات کرنا ہوں گے ،اُس پر الزامات یہ لگ رہے ہیں کہ ایک جماعت کو دیوار کے ساتھ لگا کر الیکشن کروائے جا رہے ہیں،،، ایسا تاثر ہر گز نہیں جانا چاہیے، ورنہ پاکستان مخالف لابیاں اس چیز کا فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ لہٰذا اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں، حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور قومی اداروں کو آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک کی باگ ڈور قابل افراد کے ہاتھوں میں آئے اور کوئی بھی سسٹم کو Violateکرکے آگے نہ جائے ورنہ ہم مزید 50سال پیچھے چلے جائیں گے!