اسلام آباد(خبر نگار)صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور دیگر کی آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر غیر قانونی انکوائری کے ذریعے کچھ شواہد حاصل کیئے جائیں جو مصدقہ ہو تو کیا ان مصدقہ شواہد کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا؟۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ایسٹ ریکوری یونٹ کے قیام کا نوٹیفکیشن آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے ۔بدھ کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بینچ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواستوں کی سماعت کی تو سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے اپنے دلائل نمٹاتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے قواعد کے مطابق جج کے کنڈکٹ کے بارے ابتدائی معلومات ہی ان کے خلاف انکوائری کی بنیاد ہوں گی لیکن اگر پہلا قدم ہی غیر آئینی ہو تو پھر تمام پراسس غیر آئینی تصور ہوگا۔ سندھ ہائی کورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی نے موقف اپنایا وزیر اعظم کے ایسٹ ریکوری یونٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے حوالے سے غیر آئینی انکوائری کی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے آبزرویشن دی زیر غور کیس کے اثرات مستقبل کے لئے بھی ہوں گے اس لئے دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا ایک غیر قانونی انکوائری کے نتیجے میں سامنے آنے والے مصدقہ شواہد کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے ؟۔ مواد نظر انداز کیا تو ججوں کے احتساب کا کیا ہوگا۔وکیل ر شید رضوی نے کہااگر یہ دروازہ بند نہیں کیا گیا تو جج غیر محفوظ ہوجائیں گے اور ایک ایس ایچ او ججوں کے خلاف انکوائریاں کرنا شروع ہوجائے گا۔رضا ربانی نے وزیر اعظم کے ایسٹ ریکوری یونٹ کے قیام کا نوٹیفکیشن پڑھتے ہوئے کہایونٹ کسی بھی معاملے میں کسی بھی سرکاری ادارے اور انٹلیجنس ایجنسی کو معلومات اکٹھا کرنے کے لئے کہہ سکتا ہے ،کسی ادارے کو اتنے وسیع اختیارات حاصل نہیں جتنے یونٹ کو حاصل ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ایسٹ ریکوری یونٹ کی خدمات عام شہریوں کو بھی حاصل ہیں۔رضا ربانی نے کہا اس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ شہری کا تعلق کس کلاس سے ہے ، جب انکوائری ایسٹ ریکوری یونٹ نے کردی تو سپریم جوڈیشل کونسل کے کرنے کے لئے کیا رہ گیا؟۔کیس کی مزید سماعت پیرکوہوگی۔