سوال ایک ہی ہے کہ کیا اسرائیل پر ایرانی حملہ پورے مشرق وسطیٰ کو تبدیل کر کے رکھ دے گا، کیا خطہ ایک بڑی خوفناک جنگ کی طرف جا رہا ہے یا پس پردہ کوششیں روک تھام کر ادیں گی ؟ اس سے پہلے دو بنیادی نکات تسلیم کرنا پڑیں گے۔ یہ کہ جارحیت اسرائیل نے کی اور اس نے ایران کو اس بھڑکتی جنگ میں کھینچنے کی کوشش کی ۔ اسرائیل غزہ میں جو قیامت ڈھا رہا ہے، اس کے بعد مزید مظالم، سنگدلی اور بربریت کی گنجائش نہیں رہی۔ اس کے باوجود بعض وجوہ کی بنا پر اسرائیل اپنے پرانے سکور سیٹل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنان میں اس نے مسلسل انگیخت کی، حزب اللہ پر حملے، بیروت میں ایرانی افسروں کو نشانہ بنانا ، یہ سب کچھ بڑا ہی خطرناک تھا۔ دمشق میں ایرانی قونصل خانہ پر حملہ مگرانتہا درجے کی جارحیت اور بدترین غیرذمہ داری ہے۔ کسی بھی ملک کا سفارت خانہ اس ملک کی سرزمین تصور ہوتا ہے۔اس حملہ میں تین سینئر ایرانی فوجی افسروں سمیت سات افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ایسی سنگین جارحیت تھی کہ اس کا جواب دینالازمی تھا۔ دوسری بات جو ماننا چاہیے کہ ایران نے اسرائیل پر جوابی حملہ کر کے بڑی جرات اور دلیری کا کام کیا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ پورے مڈل ایسٹ میں ایران کے سوا ایسی جرات کوئی بھی ملک نہیں کر سکتا۔ کرنا تو دور کی بات ہے سوچ بھی نہیں سکتا۔ دنیا کے کسی ملک میں اسرائیل کے سفارت خانہ پر حملہ ایک الگ بات ہے مگر اسرائیل پر ڈائریکٹ اتنے بڑے پیمانے پر حملہ کرنا خاصی جرات والا اور رسکی کام ہے۔ اسرائیل پر اس نوعیت کا آخری بڑا حملہ1973 کی جنگ رمضان (یوم کپور) میں ہوا تھا،اس جنگ میں عرب ممالک کی قیادت مصر کر رہا تھا۔یہ جنگ اسرائیل نے جیت لی تھی اور اس کے بعد عرب ملکوں میں ایسی شکست خوردگی پیدا ہوئی کہ اسرائیل پر حملہ کا خیال ہی ذہن سے نکال دیا گیا۔ مصر ی صدر سادات نے جنگ کے بعد کہا تھا کہ ہم اسرائیل سے لڑ سکتے ہیں، امریکہ سے نہیں۔ یہی وہ خیال ہے جو چند سال بعد کیمپ ڈیوڈ معاہدے اور اسرائیل کو سفارتی سطح پر تسلیم کرنے کاباعث بنا۔ یہ اور بات کہ سادات کے لئے یہ فیصلہ مہنگا پڑا اور انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ایرانی حملے کے حوالے سے دو باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔ سوشل میڈیا خاص کر فیس بک پر میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگوں نے ایران کے خلاف طنزیہ پوسٹیں لگائیں، ان میزائلوں کو مضحکہ اڑایا اور گھٹیا عامیانہ جملے بازی کی۔ وجہ شائد مسلکی تعصب رہا ہوگا۔ دو باتیں خاص طور سے کہی جاتی رہیں۔ یہ کہا کہ ایران نے یہ میزائل حملے غزہ کے لوگوں کی حمایت میں نہیں کئے بلکہ ان پر حملہ ہوا، جس میں ان کے فوجی مارے گئے تو اس لئے جواب دیا۔ بات یہ ہے کہ ایران نے کب یہ دعویٰ کیا کہ اس نے غزہ پر اسرائیلی حملے کے جواب میں جنگ چھیڑی ہے؟ ایران یہی بات کہہ رہا ہے کہ اس کا حملہ اپنے دفاع میں ہے اور اسی وجہ سے اقوام متحدہ کا چارٹر 51اسے ایسا کرنے کا جواز دیتا ہے۔ اس بات پر البتہ غور کرنا چاہیے کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کیوں کیا؟ مڈل ایسٹ کے دیگر ممالک میں سے کسی اور پر کیوں حملہ نہیں کر دیا؟ اس لئے کہ ایران ہی پورے خطے کا واحد ملک ہے جو بذات خود اور اس کے زیراثر حزب اللہ، یمن کے حوثی جیسی تنظیمیں پوری طرح اسرائیل کے سامنے کھڑی ہیں، مزاحمت کر رہی ہیں۔ غزہ مکینوں اور حماس کی کھل کر واضح حمایت ایران ہی نے کی ہے۔ دوسرا طنز کیا جا رہا ہے کہ ان میزائل حملوں کا کیا فائدہ ہوا؟ ان سے جانی نقصان تو نہیں ہوااور حملوں سے پہلے ایران نے بتا دیا تھا تو یہ حملے پھر ڈرامہ تھے کیا؟ یہ بھی بچکانہ سا اعتراض ہے۔ ایران جنگ کرنے سے گریز کر رہا ہے اور یہ معقول بات ہے۔ ایران کے جو معاشی حالات ہیں، جو پابندیاں ہیں، ایرانی کرنسی جہاں پہنچ چکی ہے، اس تناظر میں اسے جنگ سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔ ایران کو مگر مسلسل جنگ میں کھینچنے کی کوششیں اسرائیل کر رہا ہے۔ ایران نے بڑی احتیاط کے ساتھ ایک کیلکولیٹڈ جواب دیا ۔ حملہ کرنے میں ایران نے کئی دن لئے ، اچھی طرح سوچ بچار کی گئی، ممکن ہے اپنے دوست ممالک سے مشاورت بھی ہوئی ہو۔ نسبتاً کم طاقت والے میزائل استعمال ہوئے، کسی شہری علاقہ کا نشانہ نہیں لیا گیا، فوجی تنصیبات ہدف تھیں۔ حملے سے پہلے بتا دیا تھا کہ ہم جواب دیں گے اور یہ محدود پیمانے پر حملہ ہوگا۔ اس کا مقصد جنگ بھڑکانا یا وسیع کرنا نہیں۔ غالباً اسی وجہ سے کوشش ہوئی کہ جانی نقصان کم ہو۔ دراصل یہ علامتی حملہ ہی تھا، جس کا مقصد تباہی پھیلانے سے زیادہ اسرائیل اور امریکہ کو بتانا تھا کہ ان کے پاس اسرائیل کو نشانہ بنانے کی صلاحیت موجود ہے اور اگر اچانک حملہ کرے اور زیادہ بڑے پیمانے پر حملہ ہو تو کئی ایرانی میزائل اسرائیلی شہروں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ڈان نیوز نے اقوامِ متحدہ، امریکا اور برطانیہ میں پاکستان کی سابق مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ بقول ملیحہ لودھی :’’ایران کی جوابی کارروائی بہت سوچ سمجھ کر کی گئی تھی جس کا مقصد تباہی نہیں بلکہ تل ابیب کو ایک مضبوط پیغام دینا تھا کہ وہ بھی اس طرح کے اقدمات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ان منظم ترین فضائی حملوں نے اسرائیل کے جدید دفاعی نظام کو چیلنج کیا جسے امریکا نے ’بے مثال‘ قرار دیا۔ ایران نے نئے اور پرانے دونوں طرح کے کْل 300 سے زائد ڈرونز اور میزائل فائر کیے جن میں سے زیادہ تر اسرائیلی دفاعی نظام کو گمراہ کرنے کے لیے فائر کیے گئے تھے۔اسی اثنا میں ایران نے ہائپرسونک میزائل داغے جن کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے نیواتیم ایئربیس اور ماؤنٹ ہرمون میں ایک انٹیلی جنس ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا، البتہ ان میں سے بہت سے میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کردیا گیا۔عسکری نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس آپریشن نے نہ صرف اسرائیل کے آئرن ڈوم میزائل سسٹم کی حدود کو آشکار کیا بلکہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے غیر ملکی اثاثوں پر اس کے انحصار کو بھی ظاہر کیا جن میں امریکا، اردن اور برطانوی فوجی تعاون اور یورپی ریڈار کوریج شامل ہیں۔‘‘ ایران کے حملے کے بعد اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل اس کا پھر سے جواب دے گا؟ یہ جواب کتنا شدید اور پھیلائوپر ہوگا؟ کیا اسرائیل کسی ایرانی ملٹری بیس کو نشانہ بنائے گا یا موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانی نیوکلیر تنصیبات کو ہدف بنائے گا جیسا کہ اس نے چالیس سال قبل عراقی ایٹمی ری ایکٹرز کو تباہ کیا تھا؟ اسرائیل کا دوسرا حملہ اور پھر اس پر ایرانی ردعمل ہی پورے خطے کا مستقبل طے کرے گا؟ سردست بہت ہی گمبھیر اور سنگین صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ اگر اسرائیل نے جواب دیا اور یہ چین ری ایکشن خطے میں بڑی جنگ تک پہنچ گیا تب بہت ہی پریشان کن اور خطرناک صورتحال بن جائے گی۔ جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے، ان کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوں گی، جبکہ اردن جیسے چھوٹے ممالک بھی رگڑے جائیں گے۔ پاکستان پر بھی دبائو آ سکتا ہے۔ زیادہ نہ بھی ہو تو کشیدگی اور خدانخواستہ جنگ کی صورت میں پٹرول بہت زیادہ مہنگا ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں پٹرول مہنگا کرنے کا مقصد بجلی مہنگی ہوجانا ہے۔ سخت گرمی کے چارپانچ مہینے آنے والے ہیں ، جب مہنگی بجلی پہلے سے تباہ حال صارفین کی کمر توڑ دے گی۔ ہمارا، ایران، لبنان، یمن ،شام اور مڈل ایسٹ کا مفاد اسی میں ہے کہ اب جنگ مزید نہ بھڑکائی جائے۔ جو کچھ ہوچکا ہے، اس سے آگے بڑھنا چاہیے ۔ سوال پھر وہی کہ کیا ایسا ہونے دیا جائیگا؟