کیسے لکھتے ہیں بھئی یہ لوگ۔خیر لکھتے تو کسی بھی طرح ہوں لیکن کیا مزے سے لکھتے ہیں۔ایک ہی موسم‘ ایک ہی رنگ چھایا رہتا ہے تحریر کے ارد گرد۔ایک ہی اسلوب، ایک ہی مزاج۔آخر بیمار بھی ہوتے ہوں گے۔ رنجیدگی بھی سایہ ڈالتی ہوگی۔غصے میں بھی آتے ہوں گے۔ دل گرفتگی تو زندگی کے وجود کا سایہ ہے جو ساتھ ساتھ رہتا ہے۔نا امید بھی ہوتے ہوں گے۔ بیزاری بھی تو کبھی حملہ کرتی ہوگی کبھی لکھنے کی طرف طبیعت نہیں بھی آتی ہو گی لیکن دیکھ لیجیے۔کسی کے لکھنے کی عمر پچاس سال۔کسی کی ساٹھ۔کسی کی ستر۔کم سے کم چالیس سال تو اوسط بنتی ہی ہے۔کیا یہ مزے کی بات نہیں کہ ایک ہی نشست میں اور ایک ہی موڈ میں لکھی ہوئی لگتی ہیں ساری کتابیں۔جیسے کسی نے ایک ہی رنگ برنگا موسم ان کے اندر کے کمپیوٹر میں فیڈ کردیا ہو۔ ڈھیر وں الفاظ سکھا دئیے ہوں اور ان سب الفاظ پر کاسنی یا گلابی یا گہرا سبز رنگ پینٹ کردیا ہو۔ہر لفظ اسی چمک کا حامل۔ہر جملہ اسی رنگ کا غماز۔اور بھئی یہ مشکل کام بھی خاکہ نگاری میں۔ خاکہ نگاری تو مجسمہ سازی ہے مجسمہ سازی۔ذرا سی چوٹ اوچھی پڑی نہیں اور چہرے کے خد و خال مسخ ہوئے نہیں۔ ممدوح کی تعریف یا تنقیص سے بالاتر ہو کر ایک ادبی اظہار کے ساتھ ممدوح کے خصائل اور خد وخال کی تجسیم کر دینا ہی تو خاکہ نگاری ہے۔خاکے کی تو پہلی شرط ہی یہ ہے کہ نہ قصیدہ پڑھا جائے نہ اس شخصیت کو مسخ کرنا مقصد نظر نہ آئے اورخاکے کے ذریعے شخصیت سمجھی جا سکے۔ قاری کو مداح اور ممدوح دونوں پرپیار آنا چاہیے۔ محض زیب داستاں کے لیے تحریر کو انسانی خون سے رنگین کردینا بھلا کون سی خاکہ نگاری ہے۔ میں ادبی حلقوں میں نیا نیا داخل ہوا تو بہت سی شخصیات کے ساتھ شامیں اور بہت سی تصانیف کی رونمائی آئے دن کا معمول تھا۔اب بھی ہے مگر شاید اس وقت زوروں پر تھا۔ہر دو قسم کی تقریبات میں صاحب ِتقریب کا خاکہ پڑھنے کا رواج بھی زوروں پر تھا۔لیکن چند خاکے سن کر ہی ذہن چکرا گیا۔بالکل جیسے تقریب رونمائی میں کسی نکمی اور نالائق کتاب کی تعریف میں وہ خوبیاں ڈھونڈ کر بیان کی جاتی ہیں جنہیں ڈھونڈنے کیلئے ان پڑھ اور نابینا ہونا ضروری ہے، ایسے ہی کچھ جید خاکہ نگار وہ خصلتیں اور نقائص مصالحہ زدہ تحریر کے ساتھ بیان کرتے تھے جو شخصیت میں ڈالنے کیلئے فطری عیب جوئی کی صلاحیت لازمی ہے ۔سچ یہ ہے کہ وہ تو لکھنے والے کی جگت بازی کا شوق پورا ہوتا تھا ، خاکہ کہیں سے بھی نہیںہوتا تھا۔ایسی جگت بازی جو لکھنے والے کے کینے سے رگڑ کھا کر زیادہ مرچیلی ہوجاتی تھی۔ خاکے کا تو بس نام تھا اصل مقصد تو مضحکہ اڑانا تھا۔ لیکن اپنی یہ پرانی تکلیف اور شکایت مجھے کیوں یاد آئی۔وجہ یہ کہ ’ ’خط و خال ‘ ‘ کے نام سے خاکوں کی جو کتاب اس وقت میرے ہاتھ میں ہے اس کا ہر خاکہ میری بات پر مہر تصدیق ہے۔ ہمارے دوست محمد فیصل کئی کتب کی ترتیب و تالیف کا عمدہ کام کرچکے ہیں اور انہوں نے اپنے لیے ادیب اور ادب شناس کی حیثیات منوا لی ہیںان کی یہ تازہ کتاب اعلیٰ ادیبوں کے تحریر کردہ منتخب خاکوں کی ہے اور جن شخصیات کے یہ خاکے ہیں وہ بھی محتاج تعارف نہیں۔ چند نام دیکھیے۔ اطہر نفیس کا خاکہ اسد محمد خان کے قلم سے۔صادقین کی تصویر مجتبی ٰ حسین کے مو قلم سے ۔ عبد الرحمن چغتائی کا مرقع مقبول جہانگیر کے ہاتھوں لکھنؤ کے بانکے شاعر عرفان صدیقی مرحوم کا خاکہ سید محمد اشرف کی زبانی۔ عصمت چغتائی کا خاکہ قرت العین حیدر کی روایت سے۔ مولانا حسرت موہانی کا خاکہ مختار مسعود کی معجز بیانی کے ساتھ۔تین چار نام ایسے ہیں جو مداح بھی ہیں اور ممدوح بھی ۔مرزا عظیم بیگ چغتائی کا مشہور خاکہ ان کی بہن عصمت چغتائی نے لکھا۔اور عصمت چغتائی کا خاکہ قرۃ العین حیدر نے۔چراغ حسین حسرت کا خاکہ سعادت حسین منٹو نے لکھا اور سعادت حسن منٹو کا کردار شاہد احمد دہلوی نے۔ شاہد احمد دہلوی کی تصویر ابوالفضل صدیقی نے بنائی ا ورخود ابوالفضل صدیقی کی عکاسی ڈاکٹر خالد جاوید نے کی۔ یہ سب اسی کتاب میں ہے اور یہ محض چند نام ہیں ۔ کتاب اس سے زیادہ ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ محمد فیصل نے انتخاب میں بہت اچھے خاکے شامل کیے ہیں اور بہت سی نایاب تحریریں بھی اس میں شامل کی ہیں۔ وہ جو بات میںنے کہی تھی کہ کیسے مزے سے لکھتے ہیں یہ بڑے لوگ۔ اس کی جا بجا مثالیں اس کتاب کے خاکوں میں موجود ہیں۔ کتنے ہی اقتباس ہیں جو پیش کیے جاسکتے ہیں۔یہ دو تو پڑھ ہی لیجیے۔ ’’مرزا غالب تو ڈھلتی جوانی میں کلکتہ گئے تھے جبکہ کرنل محمد خان ریٹائر منٹ کے بعد بڑھاپے کے گلابی جاڑے میں میموں کی زیارت کرنے کے لیے نکلے ۔ بڑی ہمت اور حوصلے والے تھے ورنہ اس مرحلہ ٔ عمر میں بعضا بعضا تو ڈھنگ سے ہائے ہائے کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔سہ پہر کو کرنل محمد خان سے بریگیڈیر صدیق سالک اور ضمیر بھائی کی موجودگی میں ملاقات ہوئی تو میںنے جی کڑا کرکے عرض کیا : ’’کرنل صاحب!کتاب میں نازنینوں کی تعداد آپ کی ذاتی ضرورت سے زیادہ ہے ۔ آخر کو مقامی انگریزوں کا بھی حق شفعہ بنتا ہے ۔نئے ایڈیشن میں تعداد کم از کم نصف کردیجیے‘ ‘ ۔بولے : ’ ’ مجھے خود بھی احساس ہے مگر کیا کروں ،جس کو بھی نکالتا ہوں، وہ روتی بہت ہے ۔ (خاکہ سید ضمیر جعفری از مشتاق احمد یوسفی )‘ ‘۔ ’’کاتبوں سے تو انہیں اللہ واسطے کا بیر تھا۔ہر ہفتے کاتبوں کی کارگزاری سامنے آتی تو منظر دیکھنے والا ہوتا۔ ’’ اس لطیف لنگڑے کی تو دوسری بھی توڑ دینی چاہیے ۔ دیکھو یہ ، دیکھو یہ کتابت ہے ؟معلوم ہوتا ہے چیونٹی کی دم میں سیاہی لگا کرکاغذپر چھوڑ دیا ہے ۔اور اس رونق حیدر آبادی سے تو کتابت ہی نہیں کرانی چاہیے ۔مسطر بنوایا کرو۔ قبر کو خبر کہتا ہے ۔لاحول ولا قوت۔اور یہ اختر۔ ایک سطر میںسات لفظ ہوتے ہیں ۔مردود پانچ غلط لکھتا ہے۔ (زاہد شوکت علی کا خاکہ ازجاوید صدیقی ) نیشنل بک فاؤنڈیشن کتاب کے فروغ کیلئے حکومتی ادار ہ ہے ۔یہ کتاب خط و خال اسی نے چھاپی ہے ۔ تحفظات کے باجود اس ادارے نے جو اچھے کام کیے ہیں ان کی پذیرائی ہونی چاہیے اور یہ کتاب ایسے ہی اچھے کاموں میں سے ہے ۔ سچ بات یہ ہے کہ این بی ایف کے موجودہ طریق کاراور پالیسیز سے کالم نگار کو اختلاف تھا اور ہے ۔اس پر اب دوست نوازی کی گہری چھاپ بھی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ یہ کہ اس حکومتی ادارے نے اب اپنی بنیادی حیثیت ایک ناشر کتب کی بنا لی ہے ۔ میں اسے این بی ایف کے بنیادی مقاصد سے ہٹا ہوا دیکھتا ہوں ۔حکومتی اداروں کا کام منافع کمانا نہیں ہوتا۔ اسکا کردار کتاب کے فروغ کیلئے اچھا ماحول بنانا ہے اور مصنفین اور ناشرین کے موجودہ مسائل حل کرنا ہے۔ بہت بار کی چھپی ہوئی کتب کو چھاپ کر پہلے سے موجود ناشرین کے مسائل میں اضافہ کرنا نہیں۔اس ادارے نے پہلے سے موجود مسائل میں کتنے حل کیے ہیں یا ان کی طرف سنجیدہ توجہ کی ہے ؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔لیکن کس کس کا گلہ کیجیے۔ اداروں کے عہد ِ زوال میں اور کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔ہائے، کیا جملہ لکھا ہے الطاف فاطمہ نے اسی کتاب میں شامل اپنے خاکے میں۔ ’ ’جب روشن اور منور چراغ گل ہوجاتے ہیں تو اندھیارے اپنے اپنے دئیے جلاتے ہیں ۔