اکبر الٰہ آبادی نے شاہ ایڈورڈ کی دْہائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا پانی پینا پڑا ہے پائپ کا اپنی مشکل یہ ہے کہ ع حرف لکھنا پڑے ہے ٹائپ کا کچھ تو روزے کی بدحواسی اور کچھ ٹائپ کا گھپلا۔ پچھلے کالم میں ایک سابق امریکن وزیر ِخارجہ کا ذکر کیا گیا تھا، جس نے عراق پر حملے کی تیاریوں کا حْکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں تباہ کرنے کے قابل عمارتیں ہیں ہی نہیں۔ یہ بات رابرٹ گیٹس نے نہیں، ڈانلڈ رمزفیلڈ نے کہی تھی۔ ٹائپنگ کی رَو میں، ایسی اغلاط ہو ہی جاتی ہیں۔ ابھی کیا ہے، جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے، جب مضامین بول کر لکھوائے، یعنی املا کرائے جائیں گے۔ اس طرح کے سافٹ ویئر اس وقت بھی موجود ہیں، مگر اس خطے تک، براستہ بھٹنڈہ پہنچیںگے! وہ بھی دور تھا جب کتابوں اور کاپیوںکا وجود نہیں تھا۔ کاغذوں کو گوند چپکا کر جوڑا جاتا۔ کاغذ زیادہ بڑھ جاتے تو انہیں طْومار کہا جاتا۔ پھر وہ زمانہ آیا، جب کاغذ بچھایا، قلم اْٹھایا اور رواںہو گئے۔ خوش خط ہوئے تو دائروں، قوسوں اور کششوں سے حْسن ِرقم کے جلوے دکھانے لگے۔ بدخط ہیں تو "لکھے مْو سا، پڑھے خْود آ" کے مصداق کہلائے۔ اب ایسا ہے کہ کھٹا کھٹ ٹائپ کرتے جائیے اور تحریر، آن کی آن میں دنیا کے کسی بھی شہر میں پہنچ جائے۔ مشینوں کی بدولت، وقت گْزرنے کے ساتھ ساتھ "ہیومن کانٹیکٹ" یا انسانوں کا باہمی تعلق بھی کم ہوتا جائے گا۔ شاعر نے انگریزوں کے تسلط کو دیکھ کر، متنبہ کیا تھا کہ ع چْرَٹ اور چائے کی آمد ہے، حقہ پان جاتا ہے مستقبل قریب میں، اس تنبیہ پر کان کھڑے کرنے تو کْجا، اس کے سمجھنے والے بھی نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ زمانے کی حرکت کو روکنا، آدمی کے بَس کی بات ہے بھی نہیں۔ یہ تحریک، اگر خْوب کی طرف لے جائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ مگر المیہ ہے کہ بظاہر خوبی اور خیر کا سفر، دراصل خرابی کا نکلتا ہے۔ مسلمانوں کی پستی کے بڑے نوحے، پچھلے ڈیڑھ سو سال میں خصوصاً لکھے گئے ہیں۔ یہ ہم نے پڑھے بھی اور سْنے بھی۔ لیکن اتنا ہی مْضر، بلکہ مریض مار نسخہ یہ ہے کہ اس کی ساری دوا، مغرب میں تلاش کی جائے! یہ عجیب فارمولا ہے کہ مسافر مکے کا ہو۔ صحیح رستے سے وہ بھٹک جائے۔ اس پر تجویز کیا جائے کہ لندن کے عازم کے پیچھے لگ جائو۔ وہ تو ٹھیک چلا جا ہی رہا ہے! ترسم نرسی بکعبہ، اے اعرابی! کہ ایں راہ کہ تو می روی، بہ "انگلستان" است دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ "عازم ِمکہ"، بے راہ ہوا کب اور کیسے؟ چونکہ مرعوبیت نے مْسافر کا اپنا حال وہ کر دیا ہے کہ ع دل میں لندن کی ہوس، لب پہ تیرے ذکر ِحجاز اس لیے کچھ حال "لندن" کا بھی بیان ہو جائے۔ مغرب پر کم از کم ایک ہزار سال کا وقت نہایت پستی اور پس ماندگی کا گْزرا ہے۔ گندگی اور غلاظت، ان کے لباس اور کردار، دونوں میں رچی ہوئی تھی۔ ظاہری کثافت کا حال یہ تھا کہ نہانا دھونا، تقریباً جْرم کی حیثیت رکھتا تھا۔ بلکہ جرمن بادشاہ فریڈرک پر کْفر کا جب فتوٰی لگا تو فرد ِجْرم میں لکھا گیا تھا کہ مسلمانوں کی طرح، یہ بھی غْسل کرتا ہے! صفائی ستْھرائی سے یورپیوں کو کامل اجتناب تھا۔ وحشت کا ہر سْو ڈیرا تھا۔ قحط پڑا تو لندن اور پیرس کے بازاروں میں، انسانی گوشت بھی بِکنے لگا۔ مذہبی رہنما خود اتنے گْمراہ تھے کہ پوپ، جنت کی راہداریوں اور گناہ کرنے کے پرمٹ، باقاعدہ فروخت کیا کرتا۔ ایک نہایت مشہور مذہبی رہنما، محض اس لیے باغی ہو گیا کہ فروخت کا یہ ٹھیکہ، اس کے بجاے کسی اَور کو دے دیا گیا تھا۔ عوام کے لیے سْود لینا حرام تھا، مگر پوپ صاحب اپنا بینک رکھتے تھے۔ جو لوگوں کو قرض، بھاری شرح ِسْود پر دیتا۔ دو چار نہیں، ایسے سینکڑوں واقعات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس عبرت ناک اور طویل داستان کے کچھ ٹکڑے، ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کی کتاب "یورپ پر اسلام کے احسان" میں موجود ہیں۔ ایسے گھْپ اندھیرے میں، روشنی بن کر مسلمان وارد ہوئے اور یورپیوں کے دن پھِرنے لگے۔ یہاں کہنا ضروری ہے کہ نوواردوں میں ظاہری ترقی کے آثار ہزار سہی، ان کی اصل قوت، وہ اخلاقی برتری تھی جو اسلام سے حاصل ہوئی۔ عہد ِجاہلیت سے، اسلام ہی نے انہیں نکالا تھا۔ اور یہی وجہ ہوئی کہ ع خود نہ تھے جو راہ پر، اَوروں کے ہادی ہو گئے کہا جا سکتا ہے کہ یورپ کو تاریکی سے نکلنے میں مسلمانوں سے مدد ملی تو آج، جب یہ خود راندہ ہیں، کیوں نہ مغربیوں کی طرف دیکھیں؟ مشکل یہ ہے کہ مغربی یا جدید تعلیم سے، ہمارے ہاں بعض چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی اور بعض زیادہ بگڑ جائیں گی۔ اس تعلیم کی بابت کہا جا سکتا ہے وہ بھی نادان ہے جو خضر کا طالب نہ ہوا وہ بھی نافہم ہے جو خضر کو منزل سمجھا مسلمانوں کی پستی کے اسباب مختلف ہیں اور علاج بھی الگ ہے۔ مسلمانوں کو اپنی چھْوٹی ہوئی راہ، دوبارہ پکڑنی ہو گی۔ نہ یہ کہ دوسروں کی ترقی میں اپنی پستی کا علاج تلاش کریں! جدید تعلیم جب خواص کا کچھ نہیں بگاڑ سکی، تو عوام کو کہاں سْدھار پائے گی؟ بلکہ بے ایمانی کے نت نئے راستے نکلتے ہی آئیں گے۔ ذلت کے اس گڑھے سے نکالنے کی واحد صورت یہ ہے کہ تبدیلی اْوپر کی سطح پر آئے۔ مْلک کے زعماء اپنے ہم وطنوں کے لیے، ایمان داری اور شرافت کا نمونہ بنیں۔ انگریزی میں اسے "لیڈ بائی اگزیمپل" کہا جاتا ہے۔ گویا لیڈروں کو، اپنی ذات کا مثالیہ پیش کرنا ہو گا۔ اور مثالیہ بننے میں سب سے بڑی رْکاوٹ، خوف ِخْدا کی کمی ہے! آخرت کے احتساب کی جسے کچھ بھی پروا ہو، وہ زاد ِراہ کی فکر ضرور کرتا ہے۔ اور ع ایسے تو نہیں ہوتے، سامان مسافر کے یہ بھی نہیں کہ مسلم دنیا، ساری ایک جیسی ہو۔ مجھے یاد ہے کہ فلسطین میں جس ڈرائیور کی معیت میں ساری زیارتیں دیکھی تھیں، اس سے جب پوچھا کہ دودھ کیا یہاں خالص مِلتا ہے تو وہ میرا منہ تکنے لگا۔ اس پر میں نے کہا۔ مطلب یہ کہ دودھ میں پانی وغیرہ کی ملاوٹ، کیا کی جاتی ہے؟ جواباً اس نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے میرے سر پر سینگ اْگ آئے ہوں!