معزز قارئین!۔ قرآن پاک کی سُورہ الا َنفال کی آیت نمبر 60 میں کہا گیا ہے کہ ’’ اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے زور سے ) گھوڑوںکو تیار رکھنے سے اُن کے (مقابلے کے لئے ) مستعد ہو کر اِس سے خُدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور اُن کے علاوہ جنہیں تم نہیں جانتے اور خُدا جانتا ہے ، ہَیبت ؔبیٹھی ہے اور تُم جو کچھ خُدا کی راہ میں (عوام کی بھلائی پر ) خرچ کرو گے اُس کا ثواب تمہیں پورا دِیا جائے گااور تمہارا ذرّہ بھر بھی نقصان نہیں ہوگا‘‘۔ 

6 ستمبر 1965ء کو (پاک افواج کی جمعیت کے زور سے ) ہمارے گھوڑے ( جدید ترین اسلحہ ) سے تیار تھے  جب خُدا کے دشمنوں اور ہمارے دشمنوں نے ( اُن دشمنوں کی شہ پر ) جنہیں ہم نہیں جانتے تھے لیکن خُدا جانتا تھا۔ وطن عزیز کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کِیا تو اُنہیں مُنہ کی کھانا پڑی۔ ہمارے غازیوں اور شہیدوں نے مسلمانوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور کل اندرون اور بیرونِ پاکستان ، فرزندان و دُخترانِ پاکستان ، پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ ، مِل کر اُس تاریخ پر فخر کرنے کا دِن منا کر اپنے شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے تھے ۔

جنگ ِ ستمبر میں صِرف پاکستان کی مسلح افواج ہی نہیں بلکہ پوری قوم جنگ جُو بن گئی تھی۔ پاکستان کے سارے شہروں کے لوگ اُس جنگ میں شریک تھے ۔ لاہور کی فضاء میں تو، پاک فضائیہ اور حملہ آور بھارتی فضائیہ میں زور دار لڑائی ہُوئی جِس میں پاکستان کے شیر دِل ہوا بازوں نے بھارت کے دو "Hunter" طیاروں کو مار گرایا۔ ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے موضع چونڈہ ؔ میں ٹینکوں کی بہت بڑی جنگ ہُوئی۔ عالمی میڈیا کے مطابق چونڈہ میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دِیا ۔ بھارتی فضائی نے میرے سرگودھا ؔ کی شہری آبادی کو نشانہ بنایا ۔ (خواتین سمیت ) 26 افراد شہید اور بہت سے زخمی ہُوئے۔ اُس کے بعد سرگودھا میں تعینات پاک فضائیہ کے ائیر کموڈور ( مشرقی پاکستان کے ) ایم ۔ ایم ۔ عالم ( محمد محمود عالم ) نے 30 سکینڈ میں چار بھارتی طیاروں کو مار گرایا اور تین کو نقصان پہنچایا۔ صدر ایوب خان کی طرف سے لاہور، سیالکوٹ اور سرگودھا کو ’’پرچمِ ہلالِ استقلال ‘‘ سے نوازا گیا۔ 

معزز قارئین!۔ اُن دِنوں شاعر مجسٹریٹ جناب جاوید احمد قریشی "Civil Defence" کے انچارج تھے ۔ اُنہوں نے مجھے اور میرے دومرحوم صحافی ساتھیوں ، میر عبداُلرشید اشکؔ اور تاج اُلدّین حقیقت ؔ کو جناب ایم ۔ ایم ۔عالم کی ایک جھلک دِکھا کر کمال کردِیا تھا۔ مَیں نے جنگ ِ ستمبر کے غازیوں اور شہیدوں کی شان میں کئی مضامین لِکھے اور دو ملی ترانے بھی۔ ایک ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا اور دوسرا ’’محکمہ تعلقات عامہ مغربی پاکستان‘‘ کی شائع کردہ ملی نغموں کی ضخیم کتاب میں شائع ہُوا۔ مِیر عبد اُلرشید اشکؔ اور جناب جاوید احمد قریشی کے ملّی ترانے بھی ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوئے۔ جاوید احمد قریشی صاحب چیف سیکرٹری پنجاب کی حیثیت سے ریٹائر ہُوئے تھے ۔ اُن کا انتقال 28 اپریل 2014ء کو ہُوا ، موصوف جب تک ، حیات رہے میری اُن سے دوستی رہی۔ اُن کی ایک نظم کے دو شعر نذر قارئین ہیں…

ہُوئے غروب جو ہم آج کل طُلوع ہونگے!

ہمارے نام کے چرچے چہار سُو ہوں گے!

قسم ہمیں تری محرومیوں کی خاکِ وطن !

بہم تجھے وہی سامانِ رنگ و بُو ہوں گے !

معزز قارئین! ۔ سرگودھا کے میرے ایک دوست میجر (ر) رشید وڑائچ ( حزب اللہ کے سربراہ) کئی سال سے لاہور سیٹل تھے ۔ میری اُن سے باقاعدہ ملاقات ہوتی تھی ۔ایک دِن مَیں اُن کے گھر موجود تھا جب، اچانک ائیر کموڈور ایم ۔ ایم ۔ عالم صاحب وہاں تشریف لائے۔ وڑائچ صاحب اُن سے بغل گیر ہُوئے تو، جناب ایم ۔ ایم ۔ عالم صاحب نے مجھے بھی گلے لگا لیا۔ مَیں 45-40 منٹ کی اُن سے ملاقات میں نہال ہوگیا۔ مجھے ہندی زبان کے معروف شاعر ، گوسوامی ، تُلسی داس کا یہ شعر یاد آگیا … 

 ایک گھڑی آدھی گھڑی آدھی کی بھی آدھ!

 تْلسی سنگت سادھ کی کوٹ کٹے اپر ادھ !

یعنی۔’’ سادھ ( نیک ، پرہیزگار ، فقیر) کی صحبت میں ایک گھڑی ،آدھ گھڑی یا چوتھائی گھڑی میں بھی رہنا گناہوں کو ختم کر دیتا‘‘۔ مجھے صحافی کی حیثیت سے افواجِ پاکستان کے بہت سے حاضر سروس اور ریٹائرڈ اعلیٰ افسروں سے ملاقات کا کئی بار موقع مِلا لیکن مجھے جناب ایم ۔ ایم ۔ عالم اور ستمبر 1965ء کی جنگ میں ناقابل فراموش خدمات انجام دینے والے ، بریگیڈئیر (ر) سیّد افضال حسین شاہ سے قربت میں بہت راحت ملی۔ سیّد افضال حسین شاہ صاحب سے میری 2008ء سے دوستی تھی۔ اُن کا وِصال یکم مارچ 2016ء کو ہُوا۔ مرحوم اپنے دادا ( چشتیہ ، صابریہ ، قادریہ ) سلسلہ کے معروف صوفی حضرت پیر سیّد محمد امین شاہ کے گدّی نشین تھے اور اُن کے ہزاروں مُرید ین زیادہ تر’’ سماجی خدمات‘‘ انجام دیتے تھے / ہیں ۔ 

11 اکتوبر 1947ء کو افواجِ پاکستان سے خطاب کرتے ہُوئے حضرتِ قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ  ’’اگر ہم جنگ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں فوق اُلبشر محنت اور جدوجہد کرنا ہوگی۔ یہ ذاتی ترقی عہدے اور مرتبے حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ یہ وقت ہے، تعمیری کوشش کا، بے لوث جدوجہد کا اور مستقل مزاجی سے فرض شناسی کا!‘‘۔ لیکن ، کیا کِیا جائے معزز قارئین!۔ ’’ قائداعظمؒ کے فرمان پر عمل نہ کرنے کے باعث پاکستان دولخت ہُوا۔ اِس میں بڑے بڑے سیاستدانوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ جناب آصف زرداری نے 9 ستمبر 2008ء کو صدارت کا منصب سنبھالتے ہی بلند آواز سے خود کلامی کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ کیوں نہ ہم 30 سال کے لئے مسئلہ کشمیر کو "Freeze" (منجمد )کردیں ؟‘‘۔ 

مسئلہ کشمیر کو منجمد کرنے کے لئے صدر زرداری کے مقرر کردہ چیئرمین کشمیر کمیٹی ’’کانگریسی مولویت کی باقیات ‘‘ فضل اُلرحمن صاحب نے پورا تعاون کِیا۔ مودی نواز وزیراعظم نواز شریف نے بھی فضل اُلرحمن صاحب کی خدمات سے فائدہ اُٹھایا لیکن، کیا یہ قدرت کا انتقام نہیں ہے کہ ’’ نواز شریف ، اُن کی بیٹی مریم نواز اور دامادِ اعلیٰ جیل میں ہیں ۔ آصف زرداری اور اُن کی ہمشیرہ منی لانڈرنگ کے چکر میںؔ عدالتوں کے چکر میںؔ اور فضل اُلرحمن صاحب اور اُن کے دائیں بائیں لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہُوا اُسے کیا کہیں ؟۔ وزیراعظم عمران خان ، چیف جسٹس ثاقب نثار اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اُن کی "Command" میں فرزندان و دُخترانِ پاکستان سے قوم کو جو امیدیں ہیں وہ پوری کیوں نہیں ہوں گی؟۔ علاّمہ اقبالؒ نے تو، بہت پہلے ہی اللہ تعالیٰ سے کسی شہید کی گفتگو کو اِس طرح ریکارڈ کِیا تھا کہ … 

میرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کِیا ہے پیدا!

صِلۂ شہید کیا ہے؟ تب و تاب ِ جاودانہ!

کل (6 ستمبر کو ) پوری دُنیا نے پاکستان کی مسلح افواج کے شہیدوں اور غازیوں کی تب و تابِ جاودانہ کا مظاہرہ دِیکھا۔ آخر میں مَیں ستمبر 1965ء کی ’’پاک بھارت جنگ ‘‘ کے دوران لکھے گئے اپنے مِلّی ترانے کا مطلع اور دو بند پیش کر رہا ہُوں ۔جسے سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعا ت و نشریات سیّد انور محمود نے جنوری 1999ء میں دوسرے کئی شاعروں کے ترانوں کے ساتھ از سر نو ریکارڈ کروایا تھا ، جب موصوف 1999ء میں  "Pakistan Broadcasting Corporation"  کے ڈائریکٹر جنرل تھے ۔ گلوکار تھے / ہیں پٹیالہ گھرانہ کے جناب حامد علی خان ۔ 

اے مادرِ وطن ترے پیاروں کی خیر ہو!

…O…

 زُہرہ نگاروں سِینہ فگاروں کی خیر ہو!

اے مادرِ وطن ترے پیاروں کی خیر ہو!

…O…

دُنیا میں بے مثال ہیں اربابِ فن ترے!

ہر بار فتح یاب ہُوئے صف شکن ترے!

شاہ راہِ حق کے شاہ سواروں کی خیر ہو!

اے مادرِ وطن ترے پیاروں کی خیر ہو!

…O…

پھیلے ہُوئے ہیں ہر سُو، وفائوں کے سِلسلے!

مائوں کی پر خُلوص دُعائوں کے سِلسلے!

مضبوط پائیدار سہاروں کی خیر ہو!

اے مادرِ وطن ترے پیاروں کی خیر ہو!