یوں لگتا ہے ہم ایک بند گلی میں آ چکے ہیں جس کے سامنے مقتدر اور طاقتور طبقے نے اپنی دانست میں مضبوط دیوار کھڑی کر رکھی ہے۔ عوام کا جمِ غفیر روز اس دیوار کو شدید غصے سے گھورتا ہے، بے بسی کے عالم میں کمزور ہاتھوں سے اسے دھکیلنے کی کوشش کرتا ہے، ہاتھ زخمی کروا بیٹھتا ہے اور بے بسی میں مٹھیاں بھینچتے ہوئے واپس ہجوم میں کھڑے ہو کر مسلسل اس دیوار کو شدید نفرت سے دیکھتا رہتا ہے۔ یہ دیوار پاکستان کی طاقتور اشرافیہ (Elite Class) نے عوام کو محکوم اور مجبور رکھنے کے لئے کھڑی کر رکھی ہے۔ یہ دیوار ریت کی طرح کمزور ثابت ہو سکتی ہے اگر ’’بانکے پہرے دار‘‘ اس کی رکھوالی پر مامور نہ ہوں۔ یہ دیوار جو پاکستانی اشرافیہ نے کھڑی کی ہے، اس کے بارے میں اقوام متحدہ کے پروگرام برائے ترقی (UNDP) نے گذشتہ سال شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ یہ ’’ظالم‘‘ پاکستانی معیشت میں سے ہر سال 17.4 ارب ڈالر ہضم کر جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بیس فیصد امیر لوگ 49.6 فیصد آمدنی کے حصے دار ہیں، جبکہ بیس فیصد غرباء کے حصے میں صرف 7 فیصد آمدن آتی ہے۔ رپورٹ نے اس المیے کا مزید غور سے مطالعہ کر کے بتایا کہ پاکستان کی کل آمدن جو کہ 314.4 ارب ڈالر ہے اس کا 9 فیصد حصہ پاکستان کی ایک فیصد اشرافیہ کی جیب میں جاتا ہے جبکہ اس ملک کے ایک فیصد غرباء کے حصے میں صرف 0.15 فیصد آتا ہے۔ اس لوٹ مار میں سب سے زیادہ فائدہ اُٹھانے والے اور دولت ہڑپ کرنے والے وہ سرمایہ دار ہیں جو اس ملک کے چند برسوں میں اُبھرنے والے کارپوریٹ سیکٹر کا حصہ ہیں۔ یہ کاروباری طبقہ گذشتہ چالیس سال کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی پیداوار ہے۔ پاکستان کو ان چالیس برسوں میں ایک ایسے کاروباری طبقے کے لئے جنت بنا دیا گیا ہے جو نہ تو کوئی فیکٹری لگاتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی زرعی پیداوار میں اس کا حصہ ہے، بلکہ یہ ’’کاروباری‘‘ لٹیرے دنیا بھر سے سستے داموں مال خرید کر یہاں مہنگے داموں فروخت کر کے اپنی جیبیں منافع سے بھر لیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ ’’دکاندار‘‘ طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس چوری کرتا ہے اور ان میں ٹیکس چوری کی شرح ملک بھر میں بہت زیادہ ہے۔ سستی اشیاء خرید کر مہنگے داموں بیچتا ہے، کیونکہ منافع کی شرح پر اس ملک میں کوئی کنٹرول نہیں۔ اس طبقے کو پاکستان کے بہترین ذرائع پیداوار پر اجارہ داری حاصل ہے، اور یہ اپنے سیاسی اور انتظامی اثر و رسوخ سے ملک کے ہر کاروبار پر قابض ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کی جیب میں سالانہ 4.7 ارب ڈالر چلے جاتے ہیں۔ دوسرا اہم طبقہ وہ بڑے زمیندار ہیں جو صرف 1.1 فیصد ہیں مگر ان کے پاس اس ملک کے کل قابلِ کاشت رقبے کا 22 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ دونوں طبقات پاکستان کی پارلیمنٹ میں اکثریت رکھتے ہیں بلکہ ان کے سامنے دیگر لوگ، جو اقلیت میں ہیں، نہ ہونے کے برابر ہیں۔ رپورٹ نے مثال دی ہے کہ پاکستان کی معیشت بالکل ایسے ہے جیسے حکمران طبقہ اپنے ایک ہاتھ سے دولت تقسیم کرے اور پھر اپنے ہی دوسرے ہاتھ میں اسے خود وصول کر لے۔ رپورٹ کے مطابق ان دونوں طبقات کے شانہ بشانہ پاکستان کے کچھ اداروں سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں جو زمین، انفراسٹرکچر اور سرمائے میں ترجیحاتی حصے داری کی بنیاد پر پاکستان کی آمدن سے سالانہ 1.7 ارب ڈالر وصول کرتے ہیں۔ رپورٹ نے ان کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا ملک میں سب سے بڑا صنعتی کاروباری گروپ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان تینوں طبقات کے مفادات ہمیشہ مشترک ہی رہتے ہیں بلکہ کئی مقامات پر تو ان کے خاندانی اور ذاتی کاروبار بھی انہیں تینوں کو ایک لڑی میں پروئے ہوتے ہیں۔ یہ رپورٹ جب شائع ہوئی تو دنیا بھر کے میڈیا میں ایک طوفان برپا ہو گیا، مگر ہمارے ہاں صرف انگریزی میڈیا میں اسے چند کالمی خبر کے طور پر چھاپ کر فرض ادا کر دیا گیا۔ رپورٹ کی اشاعت کے فوراً بعد الجزیرہ ٹی وی نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی (UNDP) کی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کانی وگناراجہ (Kanni Wignaraja) سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا۔ یہ انٹرویو آج بھی اس کی ویب سائٹ پر ویڈیو اور تحریر کی صورت موجود ہے۔ وہ اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد پاکستان کے پندرہ روزہ دورے سے واپس لوٹی تھی۔ اس نے انتہائی دُکھ سے کہا کہ پاکستان میں غریب اور امیر دو مختلف ملکوں بلکہ ’’جزیروں‘‘ میں رہتے ہیں۔ دونوں کو ریاست کی جانب سے علیحدہ قسم کی سہولیات میسر ہیں۔ امیر علاقوں کی سڑکیں، سیوریج، بجلی، پانی، پارک وغیرہ غریب آبادیوں سے مختلف ہیں۔ اسی طرح دونوں علاقوں بلکہ دونوں ’’جزیروں‘‘ کے سرکاری سکول، سرکاری ہسپتال یہاں تک کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عمارتیں مثلاً تھانے وغیرہ بھی علیحدہ سہولتوں والے ہیں۔ امیر علاقوں کے تھانے اور ان کا عملہ مہذب اور شائستہ نظر آتا ہے جبکہ غریب علاقوں کے تھانے بوسیدہ اور عملہ درشت لہجوں اور کرخت چہروں والا نظر آتا ہے۔ پاکستان کے مجموعی معیارِ زندگی (HDI) پر عالمی ناکامی کی مہر لگاتے ہوئے اس نے کہا کہ پاکستان خطے کے چھ ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ اس سے کم صرف افغانستان ہے۔ یہ بھی شاید اس نے پاکستان سے رعایت کر دی یا پھر افغان طالبان سے مغرب کی نفرت ہے جو آج بھی انہیں اس ملک کی گذشتہ ایک سال میں پابندیوں کے باوجود ہونے والی ترقی کو تسلیم نہیں کرنے دیتی۔ صرف ایک بات سے اندازہ لگائیں کہ پاکستان کی کرنسی کی افغان کرنسی کے مقابلے میں حالت یہ ہے کہ اس وقت ڈھائی روپے کا ایک افغانی مل رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ایک روپے کے ایک ہزار سے زیادہ افغانی ملا کرتے تھے۔ افغانستان سے لوگ ہجرت کر کے پاکستان آتے تھے، یہاں چند ماہ کام کرتے اور مہینوں کا خرچہ لے کر جاتے تھے۔ سرحد کے پاس آباد شہروں کے لوگ انہیں ’’ششماہی‘‘ کہا کرتے تھے۔ یعنی یہ لوگ سردیوں کے چھ ماہ یہاں آ کر کام کر کے، اپنے بقیہ چھ ماہ کے لئے سامانِ رزق لے کر جاتے ہیں۔ یہ رپورٹ ایک سال پرانی ہے۔ اس ایک سال میں سے چھ ماہ موجودہ حکومت نے بھی گزار لئے ہیں۔ رپورٹ پہلے ہی ہماری بدحالی کا نوحہ روتی تھی، لیکن ان چھ ماہ میں جو اس بدقسمت پاکستان پر گزری ہے اور اس وقت پاکستان جس انجام کی طرف بڑھ رہا ہے اس سے پاکستانی حکومت تو شاید بے خبر ہو، لیکن پوری دنیا پاکستان کی اس ممکنہ تباہی کے خوف سے کانپ رہی ہے۔ مائیکل روبن (Michael Robin) جو دنیا کے بڑے معیشت دانوں اور کاروباری شخصیتوں میں سے ایک ہے، اس کا تازہ ترین مضمون ان چند مضامین میں سے ایک ہے جو ہماری بربادی کا منظر نامہ پیش کر رہے ہیں۔ اس کے مضمون کا عنوان ہے "Pakistan's Coming Collapse should worry the World" (پاکستان کے ممکنہ دھڑام سے گرنے سے دنیا پریشان ہے)۔ دھڑام سے گرنا اگر ہمارا مقدر ہے تو پھر اس ملک کے عوام کے پاس دو راستے ہیں۔ (1) خاموشی اور معاشی طور پر مکمل تباہی، دوسرا راستہ یہ کہ اس تباہی سے پہلے، لوگوں کا جمِ غفیر بپھرتا ہوا اس بند گلی کے سامنے کھڑی کی گئی دیوار کو زورِ بازو سے ریت کی طرح گرا دے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر اس ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔ ورنہ ماتم کرنے تو عمر پڑی ہوئی ہے۔