ہمارا " وطن" دریائے جہلم کے دائیں کنارے پر واقع ہے اور سعدی کا رکناباد یعنی ہمارا بادشاہ پور عین دریا پر آباد ہے۔کبھی ہمارا وطن ضلع شاہ پور کی حدود میں آتا تھا۔ بچپن میں ہمارے گھر کے سامنے نصب سنگ ِمیل پر " شاہ پور 58 میل" لکھا ہوا تھا۔اب وہ سنگ ِمیل بھی نہیں رہا اور ہمارا بادشاہ پور بھی ضلع شاہ پور اور ضلع گجرات سے ہوتا ہوا ضلع منڈی بہاؤالدین کی حدود میں آ گیا اور سابق ڈپٹی کمشنر سید افسر ساجد اور بابائے سیاست حاجی محمد افضل چن کی مہربانی سے ماڈل ویلج بھی بن گیا۔اب چونکہ بیوروکریسی کو اور بہت سارے ضروری اور انتہائی غیر ضروری کاموں سے واسطہ آن پڑا ہے لہذا اس قسم کے رفاعی، ترقیاتی اور عوامی بہبود کے لیے وقت کم ملنے کے باعث ان کو طاق ِنسیاں پر رکھ دیا ہے۔اب اور بہت سارے مسائل ہیں جن کو پہلے ڈیل کرنا پڑتا ہے۔انہی کاموں میں الیکشن کے دنوں میں امیدواروں کی سیاسی قسمت کے فیصلے ٹائپ کام سر فہرست ہیں۔اپنے بھانجوں اور بھتیجوں کو اسمبلی میں بھجوانے کے لئے بہت جکھ مارنی پڑتی ہے اور اس کا اقرار بھی کرنا پڑتا ہے۔اور بھی بہت سارے کام ہیں مثلاً نئی مہنگی ترین گاڑیوں کی خرید و فروخت سر ِفہرست ہے۔ آخر ایک اسسٹنٹ کمشنر کو ایک دو کروڑ کی گاڑی پر بیٹھ کر پیاز، آلو اور سبز مرچوں کی رہڑیوں اور ٹھیلوں کو چیک کرنا شامل ہے۔بیورو کریسی کا کامل ایمان ہے کہ عوام کی صحت سب سے زیادہ ضروری ہے لہذا اس خدشے کے ازالہ کے لئے بہت ضروری ہے کہ کوئی پیاز یا آلو خراب نہ ہو اور پیاری عوام کے پیٹ یا معدے کو نقصان نہ پہنچے۔آج کل کھمبیوں کی طرح اگنے والی تحصیلیں ایک آدھ تھانے کی حدود کے برابر ہو گئی ہیں لہذا اس کے لیے نئی گاڑیوں کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ضروری کاموں میں اپنی منشا کے چوائس سے چھٹکارہ بھی شامل ہے۔جکھ مارنے میں اپنے دانے چگ لینے کا مزہ ہی الگ ہے۔اسے ایک پنتھ دو کاج کے محاورے سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی وطن مالوف میں دو دن قبل ہمارے دوست امداد حیدر کے والد کا انتقال ہوا تو وہاں تعزیت کے واسطے ندیم افضل چن بھی آئے ہوئے تھے۔ندیم افضل کا ایک تعارف تو حاجی افضل چن کا بیٹا ہونا بھی ہے مگر انہوں نے اپنا راستہ اور مقام خود بھی بنایا ہے۔ان کے نقطہ ِنظر سے آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کو اپنے موقف کو جس طرح جرات اور آبرو سے پیش کرنا آتا ہے وہ بہت کم سیاست دانوں کو نصیب ہوا ہے۔دوئم وہ ہمارے ضلع کے واحد سیاست دان ہیں جو موجودہ قومی لیڈروں میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ہمارے ضلع کے جتنے بھی سیاست دان ہیں ان سب کا تعارف ضلع کی سطح تک محدود ہے۔ضلع سے باہر ان کی اہمیت اس شاعر کی سی ہے جن کا ایک شعر بھی مشہور نہیں ہوتا۔ان کو اپنا موقف پیش کرنا بھی آتا ہے اور اپنی سچائی کا دفاع بھی۔چند دن قبل انہوں نے ایک قومی چینل پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ طاقت ور حلقے ان کو انتخابی میدان سے باہر رکھنا چاہتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ انتخابی میدان میں ان کو حلقے میں ہر ایک پر سیاسی اور اخلاقی برتری حاصل ہے۔اس دفعہ بھی وہ جیت کر اپنی سیٹ نہیں بچا سکے۔یہی حال ان کے چھوٹے بھائی وسیم افضل چن کے ساتھ ہوا۔ موجودہ انتخابات میں ہمارے ضلع کی دو قومی اور چار صوبائی اسمبلی نشستوں کی جس انداز میں قطع و برید کی گئی تھی اس کو سمجھنے کے لیے افلاطون کی سی عقل درکار ہے۔اسی قطع و برید کی وجہ سے بہت سے مرد ِمیدان دل چھوٹا کر کے ایک طرف ہو گئے مگر وسیم افضل چن نے اپنے والد اور بڑے بھائی کی قیادت مین اس طرح انتخابی جنگ لڑی کہ بڑوں بڑوں کو پسینہ آ گیا۔اسی پر بس نہیں ان دونوں بھائیوں اور ان کے والد پر کسی قسم کی کرپشن کا الزام تک نہیں۔بلکہ یوں کہنا زیادہ روا ہے کہ ان کی دیانت کی قسم اٹھائی جا سکتی ہے۔اس زمانے میں جب سیاست دانوں کا طرہ امتیاز ہی پیسہ ہے وہاں ایسے لوگوں کا ہونا غنیمت ہے۔ ملک امداد حیدر ہمارے بچپن کے دوست ہیں ان کے ساتھ ہمارا چالیس سالہ تعلق ہے۔ان کے والد مرحوم بھی ہمارے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آتے تھے۔باپ بیٹا لاہور کی تیز رفتار زندگی کو تیاگ کر ٹبہ میاں والا کیا مقیم ہوئے گویا لاہور کو ہی وہاں ٹرانسفر کر لیا۔اپنی زمینوں پر رہنے کھیتی باڑی کروانے اور اپنوں کے درمیان زندگی گزارنے کا مزا ہی اور ہے۔جو مزا چھجو کے چبارے نہ بلخ بخارے اسی کو کہتے ہیں۔اتنے بڑے زمیندار ہونے کے باوجود ان کی گردن میں سریا نہ آیا۔اعلٰی سرکاری ملازمت کے دوران بھی ان کے عجز پر رشک آتا تھا۔انہوں نے ایک باوقار زندگی گزاری۔ اولاد کو پڑھایا اور اعلٰی تعلیم دلوائی اور معاشرے کا کارآمد اور کامیاب فرد بنایا۔چھوٹے سے گاؤں میں ریلوے اسٹیشن بنوایا اور عام لوگوں کے لیے سہولت کے در وا کیے۔مرحوم حاجی افضل چن کے ذاتی دوست تھے اور عید کے دن کھانے پر لازما ً دونوں دوست اکٹھے ہوتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ندیم افضل چن ان کی رحلت کی خبر سن کر فورا ً آ گئے تھے۔ان کے خیالات سے بھی واقفیت حاصل کی اور اپنے علاقے کے چند مسائل بھی ان کے گوش گزار کیے۔سب سے اہم مسئلہ وہ سڑک ہے جو مونہ پل سے براستہ چوک چاندنی، کولووال اور ساہنہ سے ہوتی ہوئی ڈسٹرکٹ کمپلیکس تک جاتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس کی گرانٹ منظور ہو چکی ہے۔جلد ہی اس سڑک پر کام شروع ہو جائے گا۔ایک اور سڑک سرگودھا سے نہر کی پٹڑی کے ذریعے سالم /بھیرہ تک کی بھی خوش خبری سنائی گئی۔ ان سے پنجاب کی گورنری کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے ڈپلومیٹک خاموشی ہی اختیار کیے رکھی۔ حالیہ انتخابات میں اگرچہ اس خاندان کو اسمبلیوں میں تو نہیں پہنچنے دیا گیا اور ان کے راستے میں بہت ساری رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔اس کے باوجود عوام ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہو گئے اور وہی الیکشن جس میں انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا گیا علاقے میں ان کی سیاسی سیادت پر مہر ِتصدیق ثبت کر گیا ہے۔