لگتا ہے حکومت بوکھلا گئی ہے۔اس بار جس طرح پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اکابرین اقتدار فیصلہ کرنے کی قوت اور وقت پر اس کے نفاذ کا فہم کھو چکے ہیں ۔ اس اچانک اضافے سے پٹرول پمپ مالکان اور آئل کمپنیوں کو لمحہ بھر میں کروڑوں کا فائدہ پہنچادیا گیا اور عوام بے بسی اور حیرت سے اپنے اوپر پڑنے والے اس بوجھ کو اٹھانے پر مجبور۔ پٹرول مالکان نے اضافے کے امکان کے پیش نظر اس کی فروخت بند کردی تھی جس سے بحرانی کیفیت پیدا ہوئی ۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ حکومت ان پٹرول پمپ مالکان کے ساتھ مصنوعی بحران پیدا کرنے پر سختی کے ساتھ نمٹتی اور انہیں قیمتوں میں تبدیلی کے طے شدہ وقت تک پرانی قیمتوں پر پٹرول فروخت کرنے پر مجبور کرتی مگر کمزور اور لڑکھڑاتی ہوئی حکومت کے لئے با اثر پٹرول مافیا کے سامنے کھڑا ہونا آسان نہ تھا اس کے لئے عافیت اسی میں تھی کہ تین دن پہلے ہی دن کے گیارہ بجے سے نئی قیمتوں کا اطلاق کردیا جائے۔ اس صورت حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس کسی بھی بحران سے نمٹنے کا کو ئی منصوبہ ہے اور نہ کوئی پیش بندی ۔حالات کا درست ادراک اور مسائل کے حل کے لئے بروقت فیصلے ہی قیادت کی اہلیت کا تعین کرتے ہیں محض بڑھکوں سے ریاستی معاملات چلنے سے رہے۔ امریکی ڈالر نے جس طرح ڈار صاحب کے اس دعوے کو کہ وہ ڈالر کو دو سو سے کم پر لے آئینگے مذاق بنا کر رکھ دیا ۔ آج ڈا لر 270 روپے میں بھی کمیاب ہے۔ موجودہ حکومت بالخصوص اس کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار جن کا تعارف ان کی جماعت معاشی جادوگر کے طور پر کراتی رہی ہے مگر اب ان کی جادوگری ریاست کے مشکل معاشی صورت حال میں چلنے سے عاجز نظر آرہی ہے۔ان کی پھرتیاں بس ان کے ہی کام آسکیں ،اپنا منجمند بنک اکائونٹ فعال کرالیا،اپنی ضبط شدہ جائیداد بھی حاصل کرلی اور جو مقدمات نیب اور دیگر عدالتوں میں زیر سماعت تھے ان سے بھی بڑی حد تک گلو خلاصی میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ رہ گئیں و زارتی ، منصبی ذمہ داریاں تو وہ انہوں نے اللہ کے سپرد کردی ہیں۔کچھ نہیں معلوم کہ کب وہ ( اپنے تمام معاملات درست ہونے کے بعد ) اپنے سمدھی کے پاس لندن جو ان کا دوسرا ( یا پہلا ) ٹھکانہ ہے ، واپس چلے جائیں ۔وطن سے محبت اور تعلق بس ان کا اتنا ہی ہے ۔ریاست سے وفاداری کا تعلق نبھانے کی تمام تر ذمہ داری عوام کی ہے انہیں تو یہیں رہنا ہے ان کا جینا مرنا اسی مٹی میں ہے۔اس ریاست سے مقتدر اشرافیہ کا تعلق بس اس وقت تک ہے جب تک انہیں اقتدار اور مراعات حاصل رہتی ہیں جیسے ہی وہ ان سے محروم ہوتے ہیں یا کردئے جاتے ہیں ریاست سے ان کا تعلق ختم یا بڑی حد تک کمزور ہو جاتا ہے اور وہ پہلی فرصت میں ریاست کو ،اس کے عوام کو اور ان کی مشکلات کو اللہ کے سپرد کرتے ہوئے اپنے ان ٹھکانوں کی طرف چل دیتے ہیں جہاں وہ اپنی کمائی ہوئی ( یا لوٹی ہوئی ) محفوظ دولت سے بے فکر اور پر آسائش زندگی جی سکیں۔اس میں کوئی تخصیص نہیں ۔پاکستان پر جو معاشی مشکلات آئی ہوئی ہیں اس میں عام آدمی کا کتنا حصہ ہے قرضے جو ریاست کے نام پر لئے جاتے ہیں اس کے بیشتر حصے سے مستفید تو مقتدر اشرافیہ ہی ہوتی ہے، خواہ وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی۔ انتظامی ہو یا کاروباری ۔ان قرضوں سے ان کے ہی حالات بدلتے ہیں۔ ریاست اور اس کے عوام کی تقدیر تو نہیں بدلتی۔ ریاست غریب سے غریب تر ہو گئی اور اس کے حکمران امیر سے امیر تر ۔ بدلتے حکمرانوں کا یہ وتیرہ رہا کہ انہوں نے عوام کو ریاست کے افلاس کا ، اس پر پڑی افتاد کا اور نازک حالات کا آئینہ دکھاتے ہوئے ان سے مزید قربانی کا تقاضہ کیا مگر خود کوئی قربانی نہیں دی ۔ یہ وہ تماشہ ہے جو اس ملک کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو چکا تھا تاہم اس تماشے کو اب ختم ہونا ہے اور تماشائیوں میں بھی بیزاری کے آثار ہویدا ہو رہے ہیں ۔ جیسا کہ افتخار عارف کہہ چکے ہیں: چراغ حجرہ درویش کی بجھتی ہوئی لو ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشہ ختم ہوگا دل ما مطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشہ ختم ہوگا مگر یہ بات تما شہ گر نہیں جانتے، وہ ہمیشہ کی طرح اس گمان اور اطمنان میں ہیں کہ ان کی چالاکیوں ،عیاریوں اور ہیرا پھیریوں کا تماشہ اسی طرح چلتا رہے گا جیسے اب تک ہوتا آیا ہے۔ عوام ہمیشہ کی طرح بے خبر ہیں اور بے خبر ہی رہینگے۔ مگر نہیں۔وقت بدل رہا ہے اب مقتدر اشرافیہ کو بھی بدلنا ہو گا اب اسے قربانی دینا ہو گی ۔ اپنے مالیاتی اثاثوں کو خواہ وہ کسی بھی طرح جمع کئے گئے ہیں ریاست کو لوٹانے کا وقت آچکا ہے ۔ ریاست جس سے وہ ہمیشہ فائدے اور مراعات لیتے رہے ہیں اب اسے دینے کا وقت آگیا ہے ۔یہ ریاست کی بقا کا معاملہ ہے ۔اس لمحہ ء موجود میں کئے جانے والے فیصلوں پر ہی مستقبل کا انحصار ہے۔ اس سے اغماض اب ریاست سے بے وفائی ہوگی ۔ اب بائیس کروڑعوام کو نہیں بائیس ہزار خواص کو ریاست کی پکار پر لبیک کہنا ہے۔عالمی مالیاتی اداروں نے حکمرانوں کی روش کو دیکھتے ہوئے اب قرض دینا بھی بند کردیا ہے ۔دوست ریاستوں نے تعاون منجمند کر رکھا ہے۔ وہ بھی جان گئے ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے مالیاتی اثاثے ریاست سے باہر محفوظ رکھ چھوڑے ہیں ۔ حکمرانوں کی مالیاتی بد عنوانیوں کے قصے اب زبان زد عام ہیں ۔ یہ اثاثے کس کام کے جب وہ ریاست کے کام نہ آسکیں۔ ایسی قیادت کا کیا بھروسہ جب وہ ریاست کی پکار نہ سن سکے اور جب ریاست کے حکمران ہی ریاست کی مجبوریوں اور ضرورتوں کو سمجھنا نہیں چاہتے تو دوست ریاستوں کو کیا غرض کہ وہ ہر مشکل میں ساتھ کھڑی ہوں۔ ریاستوں کے تعلقات اور دوستیاں باہمی مفادات پر مبنی ہوتی ہیں ریاستوں اور اداروں کو ہمیشہ اپنے مفادات مقدم ہوتے ہیں۔اس رمز کو سمجھے بغیر معاشی بحران سے نکلنا ممکن نہیں۔اب ریاست کا دست سوال غیروں کے سامنے نہیں اپنوں کے آگے ہے، اسے اب کسی صورت خالی نہیں رہنا چاہیئے ۔