جارج کارلین (George Carlin) امریکہ کا مشہور و مقبول سٹیج کامیڈین تھا۔ وہ اکیلا ہزاروں لاکھوں کے مجمعے سے براہِ راست مخاطب ہوتا اور جب تک سٹیج پر رہتا اپنے لطیفوں، چٹکلوں اور طنزومزاح سے بھر پور گفتگو سے ماحول کو سحر میں جکڑے رہتا۔ اسے اپنے دور کا بہت بڑا ’’سماجی نقاد‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس نے جب امریکی میڈیا پر بولے جانے والے ’’سات غلیظ اور فحش الفاظ‘‘ کے خلاف اپنے شوز میں مزاحیہ انداز میں احتجاج شروع کیا تو امریکہ کی سپریم کورٹ نے 1978ء میں اپنے مشہور فیصلے جو انہی کی وجہ سے "Seven Dirty Words" ’’سات گندے الفاظ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں حکومت کو اختیار دیا کہ وہ میڈیا سے اس طرح کے فحش اور غیر اخلاقی الفاظ سنسر کر سکے۔ جارج کارلین امریکہ کی دنیا پر مسلّط کی گئی جنگوں کا سخت ناقد تھا۔ نیو یارک کے ایک بہت بڑے ہجوم کی تالیوں کے بیچ اس کے مزاح میں رچے طنزیہ فقرے رونگنے کھڑے کر دیتے ہیں۔ اس نے کہا، ’’ہمیں جنگ پسند ہے، ہم جنگ سے محبت کرنے والی قوم ہیں، ہمیں جنگ اس لئے پسند ہے کیونکہ اب ہم اس میں ماہر ہو چکے ہیں۔ ہماری یہ مہارت اس لئے ہے کہ ہم نے اس کی بہت زیادہ پریکٹس کی ہے۔ یہ ملک صرف دو سو سال پرانا ہے، لیکن دس بڑی جنگیں لڑ چکا ہے۔ ہم ہر بیس سال میں ایک بڑی جنگ میں کودتے ہیں۔ ہم کسی اور کام میں تو مہارت رکھتے ہی نہیں۔ نہ ہم اچھی کاریں بنا سکتے ہیں اور نہ ہی ٹی وی سیٹ اور وی سی آر، ہم نہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھنے کے قابل ہیں اور نہ ہی اپنے نوجوانوں کو پڑھانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ لیکن تالیاں بجائو ہم بم ٹھیک نشانے پر مارتے ہیں، خاص طور پر اگر وہ ملک ’’گندمی‘‘ رنگ والوں کا ملک ہو۔ یہ ہمارا خوش کن مشغلہ ہے۔ دنیا میں یہی ہماری واحد کارکردگی ہے…گندمی لوگوں پر بم برسانا۔ آپ کو یاد ہے آخری دفعہ ہم نے کب سفید فام لوگوں پر بم برسائے۔ کیا ہم نے کبھی سفید فام لوگوں پر بم برسائے۔ ہاں یاد آیا۔ صرف جرمن واحد سفید قوم ہے، وہ بھی اس لئے یہ لوگ ہمارے اس شوق کے راستے میں آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ اس دنیا پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ ان عقل کے اندھوں کو معلوم نہیں تھا یہ صرف ہمارا حق ہے‘‘۔ یہ ’’بلیک کامیڈی‘‘ اس شخص کے 1992ء کے ایک شو کی تھی جب امریکہ عراق کی پہلی جنگ ابھی ختم ہوئی تھی… اس کے بعد تو گیارہ ستمبر آیا اور امریکہ نے بیس سال تک مسلم دنیا کو جنگ کے شعلوں میں لپیٹ دیا اور اب وہ روس، یورپ اور چین کو جنگ میں اُلجھا کر خود سات سمندر پار بیٹھ کر اسے کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ دنیا کا کوئی تجزیہ کار یا عسکری و سیاسی ماہر اس سے انکار نہیں کرتا کہ امریکہ کی ساری معیشت اسلحہ اور جنگ کے گرد گھومتی ہے۔ لیکن ان جنگوں کے پیچھے امریکہ کے پالیسی سازوں کی اس شیطانی اور خونی خواہش پر بہت کم لوگ گفتگو کرتے ہیں کہ امریکہ اس دنیا میں انسانوں خصوصاً سیاہ فام اور گندمی افراد کی آبادی کو مختلف طریقوں سے کم کرنے کے ہدف پر گامزن ہے۔ انہی طریقوں میں سے ایک طریقہ جنگ بھی ہے جسے وہ آخری حربے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ باقی طریقوں میں پاپولیشن کنٹرول کے عالمی نظام کے تحت مختلف طریقے، مثلاً خاندانی نظام کی شکست و ریخت کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرستی زندگی کو آئینی اور قانونی تحفظ دینا بھی شامل ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کے لئے امریکہ اپنے تمام حربے استعمال کرتا ہے جو جنگی نوعیت کے ہیں۔ ان میں سے معاشی پابندیاں لگانا ایک چھوٹا حربہ ہے۔ جب نائیجیریا نے مانع حمل ذریعوں اور ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دینے سے انکار کیا تو امریکہ نے اس کی معاشی اور فوجی امداد روک دی اور اس کیلئے ’’بوکو حرام‘‘ جیسا گروہ اپنی مدد سے کھڑا کر دیا، جب ایکواڈور نے اسقاطِ حمل کو قانونی بنانے سے انکار کیا تو اقوام متحدہ نے عین کرونا کے دنوں میں مدد روک دی۔ جب کینیا کی حکومت نے مشہور کمپنی "Marie Stopes" جو دنیا بھر میں اسقاطِ حمل کے بارے میں بدنام ہے، کے بارے میں شواہد پیش کئے وہ خفیہ طور پر لاکھوں عورتوں کے خطرناک نوعیت کے اسقاطِ حمل کر رہی ہے، تو امریکہ نے ان شواہد پیش کرنے والے محکموں کے سربراہوں پر مقدمے چلانے کا مطالبہ کر دیا۔ جب یمن نے اسقاطِ حمل کے تحفظ کا قانون بنانے سے انکار کیا تو اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ نے خوراک کی سپلائی روک کر لاکھوں بچوں کو بھوک سے مرنے دیا۔ زمبیا جہاں 11 فیصد افراد ایڈز کا شکار تھے، انہوں نے ہم جنس پرستی کو قانونی بنانے سے انکار کیا تو اس کی تمام عالمی امداد روک لی گئی۔ وہ امریکہ جسے جنگ و جدال پر سرمایہ خرچ کرنے سے فرصت نہیں اُس نے خود اور اقوام متحدہ کے ذریعے اربوں ڈالر دنیا کے مختلف ممالک کو آبادی کم کرنے کے پروگرام کیلئے دیئے۔ چین جیسے خودمختار ملک کو بھی ایک کروڑ ڈالر سالانہ کے حساب سے 2017ء تک امداد دی گئی اور چین میں زبردستی نس بندی اور اسقاطِ حمل کروائی گئی۔ پیرو میں 1995ء سے 1997ء تک صرف دو سالوں میں تین لاکھ خواتین کی نس بندی کرائی گئی۔ یوگنڈا میں ایڈز پھیلا تو 1991ء میں 21 فیصد افراد اس کا شکار ہوئے۔ انہیں خوف دلا کر زبردستی کنڈوم استعمال کروانے کو کہا گیا، لیکن اس سے کچھ فرق نہ پڑا تو حکومت نے کنڈوم کے استعمال کی بجائے لوگوں کی اخلاقیات اور طرزِ زندگی کی تبدیلی پر زور دیا تو 2004ء میں یہ تعداد صرف 6 فیصد رہ گئی۔ اس ’’اخلاقی برتری‘‘ کے پروگرام کے خلاف عالمی سطح پر ایک مہم شروع کی گئی اور صدر ’’یوری موسا وینی‘‘ کو تختۂ مشق بنایا گیا اور اقوام متحدہ نے اپنی تمام امداد روک دی۔ انہی طریقوں سے پوری دنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک میں جبری نس بندی، اسقاطِ حمل اور مختصر خاندان کو عوام پر زبردستی تھوپا گیا۔ کسنجر پروگرام جو دنیا کی آبادی کو کم کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا، اس کے اہم ممالک میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نائیجیریا، میکسیکو، انڈونیشیا، فلپائن، تھائی لینڈ، مصر، ترکی، ایتھوپیا اور کولمبیا ہیں۔ ان کے علاوہ دنیا کے 80 ممالک میں اقوام متحدہ کے پروگرام نصف صدی سے چلے آ رہے ہیں۔ کسنجر رپورٹ نے یہ خطرہ ظاہر کیا تھا کہ زمین زیادہ سے زیادہ گیارہ ارب افراد کا بوجھ اُٹھانے کی سکت ہے، لیکن جس رفتار سے اس کی آبادی بڑھ رہی ہے، 2100ء کے آنے تک کرۂ ارضی پر 22 ارب افراد ہوں گے، اور یہ بائیس ارب افراد کی اکثریت چونکہ کم ترقی یافتہ ممالک سے ہو گی، اس لئے یہ بھوکے ننگے یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ممالک پر چڑھ دوڑیں گے۔ کسنجر پروگرام کی تعیش پرستی اور اخلاق باختگی نے دوسری طرف پورے یورپ کی آبادی کو بدترین زوال کا شکار کر دیا اور جو آبادی ساٹھ کی دہائی میں تیس لاکھ سالانہ کی تعداد سے بڑھ رہی تھی 2005ء سے 2022ء تک صرف ستر ہزار سالانہ کی تعداد میں بڑھتی رہی ہے اور اس سال تو حیرت یہ ہوئی کہ یکم جنوری 2021ء کو یہ آبادی چوالیس کروڑ ستر لاکھ تھی اور یکم جنوری کو یہ آبادی چوالیس کروڑ ارسٹھ لاکھ ہو چکی ہے۔ یعنی شرح اضافہ میں کمی نہیں بلکہ اُلٹا دو لاکھ افراد کم ہو گئے۔ اس وقت یورپ میں 15 ممالک ایسے ہیں جہاں نوجوانوں کی تعداد اسقدر کم ہو چکی ہے کہ انہیں روزمرہ کاروبارِ مملکت چلانے کیلئے باہر سے لوگ منگوانے پڑتے ہیں جبکہ بوڑھوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ ان کی دیکھ بھال مشکل ہو چکی ہے، کیونکہ یورپ نے ایک ایسا اخلاق باختہ معاشرہ تخلیق کر لیا ہے جو جنسی لذت اس خوف سے بے پروا ہو کر حاصل کرتا ہے کہ اولاد نہیں ہو گی، اولاد اس لئے حاصل نہیں کرتا کہ کون یہ جنجال پالے اور پھر اس اولاد نے آخرکار اسے ’’اولڈ ایج ہوم‘‘ میں چھوڑ کر جانا ہے تو پھر کیوں ان کی پرورش کا بوجھ اُٹھائے۔ عام جنسی زندگی، خاندانی بندھنوں سے آزاد ہو چکی ہے اور ہم جنس پرستی کا طوفان نسلِ انسانی کے خاتمے کی جانب رواں ہے۔ اس کے مقابلے میں غیر ترقیاتی ممالک کی آبادی مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایسے میں امریکہ بم نہ برسائے، قتل و غارت نہ کرے، جنگ نہ چھیڑے تو کیا کرے۔ (ختم شد)