تم نے کیسا یہ رابطہ رکھا نہ ملے ہو نہ فاصلہ رکھا نہیں چاہا کسی کو تیرے سوا تونے ہم کو بھی پارسا رکھا ہو سکتا ہے کہ صاحبان فن کے دل میں کوئی خیال آئے کہ یہ تو شتر گربہ ہو گیا کہ پہلے شعر میں تم اور دوسرے میں تو مگر اہل دل جانتے ہیں کہ آپ سے تم اور تم سے تو کیا ہوتا ہے۔ اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف کہ جس کی بنیاد یا حاصل اسی غزل کا ایک شعر ہے کہ: پھول کھلتے ہی کھل گئی آنکھیں کس نے خوشبو میں سانحہ رکھا تو صاحبو! بات یہ ہے کہ ان دنوں بسنت کا بہت چرچا ہو رہا ہے کہ بہار آیا ہی چاہتی اور اڑتی سی اک خبر زبانی طیورکی۔ امجد اسلام امجد جیسا محبوب و مقبول شاعر کہ جو ہر محفل کی جان ہوا کرتے تھے جب آنکھ بند کر گئے تو ادبی فیسٹیول مؤخر نہ ہو سکا کیوں ہوتا؟ فضول میں فاطمہ قمر وغیرہ نے شور مچایا۔ ’کون مرتا ہے پھر کسی کے لئے‘!خیر یہ بات تو ضمناََ آ گئی کہ مقط’ع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات‘ اگر میں اس چکر میں پڑ گیا کہ یہ فیسٹول کس کا پیغام تھا تو میں بھٹک جائوں گا۔ میں بسنت تک ہی محدود رہنا چاہوں گا ۔ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں میں جشن بہاراں کے بہترین انتظامات کئے جائیں، ہارس اینڈ کیٹل شو کے ذریعہ بہترین تفریح پیش کی جائے گی۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ سیاست میں تو پہلے ہی ایسا منظر نامہ چل رہا ہے کہ ساری دنیا خندہ زن ہے چلیے آپ اسے اختراع کہہ لیں سمجھ تو آپ گئے ہونگے ویسے کسی سے کوئی بھی پیچھے نہیں۔نعرے بازی ہو یا سپریم کورٹ پر حملہ ہو یا پھر پتھروں سے بھری وین لے کر پیشی کا منظر ہو اس عزت افزائی میں سب ایک ہیں۔ اور عزت پانے والے بھی اپنے آپ کو خود پیش کرتے رہتے ہیں ایسے ایک شعر یاد آ گیا۔ توہین عدالت کا ارادہ تو نہیں تھا۔بے ساختہ سرکار ہنسی آ گئی مجھ کو۔ تو بات چلی تھی بسنت کی جسے عرف عام میں اب جشن بہاراں کہہ دیا جاتا ہے ۔وہ جو میں نے اوپر سانحہ کا تذکرہ کیا تھا وہ مجھے یاد دلاتا رہتا ہے کہ اچھرہ روڈ پر ایک باپ اپنے بچے کو آگے ٹینکی پر بٹھانے کہیں چھوڑنے جا رہا تھا کچھ دیر بعد وہ بچہ اس کے بازو پر سر رکھ دیتا ہے۔ باپ نے سمجھا کہ وہ سو گیا ہے اس نے اسے درست کرنے کی کوشش کی مگر اس پر کھلا کہ اس کے لخت جگر کا سر کٹ چکا ہے کوئی قاتل ڈور اس کی زندگی کی ڈور کاٹ گئی۔ایک باپ پر اس سے بڑی قیامت کیا ٹوٹ سکتی ہے یہ ایک واقعہ نہیں ہے۔درجنوں واقعات ہیں ایک زمانہ تھا کہ ایسا نہیں تھا۔میں خود بھی کوئی جشن بہاراں اور بسنت وغیرہ کے خلاف نہیں کہ لطف اٹھانا چاہیے کہ جیسے قتیل شفائی نے کہا تھا کہ: میں آج بھی بھولا نہیں آداب جوانی میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا مگر معاملہ یہ ہے کہ سناریوں بدل چکا ہے۔پہلے اس طرح کے اکا دکا واقعات ہوتے تھے اس پتنگ بازی میں خونی واردات شامل ہو گئی۔ایسی ایسی ڈور بننے لگی کہ بس آبادی بڑھ گئی۔ میدان تو ختم ہو چکے زندگی سب سے قیمتی شے ہے باقی معاملات درست ہیں کہ داتا دربار محفل سماع کروائی جائے۔ ویسے یہ تو ن لیگ کے کلچر میں بھی یقینا مشاعرہ بھی جشن بہاراں کی تقریبات میں سب سے اہم رہا ہے، ہم نے کئی مشاعرے اس حوالے سے پڑھ رکھے ہیں وہ دن بہت اچھے تھے: ہم بھی سوتے تھے کوئی یاد سرہانے رکھ کر ہاں مگر گردش ایام سے پہلے پہلے خاص طور پر ہمارے مہربان شبیر صاحب ایک مشاعرہ ریس کورس میں کروایا کرتے تھے میں تو اس مشاعرہ کا کمپیئر ہوا کرتا تھا ۔کیسے کیسے شاعر اس میں جلوہ افروز ہوئے اس مشاعرے کی خوبی یہ تھی کہ وہاں گھومنے پھرنے کے لئے آئے ہوئے لوگ بھی سامعین میں شریک ہو جاتے ہیں۔پھر ہمارے ملک کے حالات دگرگوں ہوتے گئے، غیر محفوظ ہوتے گئے اور تو اور پولیس کے اقامت گاہیں بھی دیواروں کے حصار میں آ گئیں۔ پھر کورونا آ گیا تو رہی سہی کسر بھی نکل گئی۔پچھلی حکومت نے ٹینس صورت حال میں بھی کرکٹ میچ کروائے تو کچھ خوشی لوٹ آئی تھی۔ اب کے تو مہنگائی عذاب بن گئی ہے حکومتی صورت حال بھی اچھی دیکھی، وہاں بھی کچھ پتہ نہیں ،کوئی نہیں جانتا وہی جانتے ہیں جن کے ہاتھ میں ان کی ڈوریں ہیں اب کسی کو اس میں ذرا سا بھی شک نہیں رہا کہ یہ سب پتلیاں ہیں اور اب کے وہ ہاتھ بھی سب نے دیکھ لئے ،، اب انہوں نے ہاتھ کھینچا توکی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیسے ناچنا ہے۔ میں پھر بہک گیا کہ موضوع سے ہٹ گیا موضوع تو بسنت تھا لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جشن بہاراں میں بسنت پر پابندی ہی رکھی جائے۔ چلیے ایک تسلی تو ہے کہ قاسم علی شاہ بھی اس حوالے سے اپنا رول ادا کریں گے کہ وہ چیئرمین بنا دیے گئے ہیں یہ ایک اچھی خبر ۃے کہ وہ ایک پاکیزہ اور صاف ذھن رکھتے ہیں یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ خان صاحب کے حوالے سے خبروں میں رہے مگر انعام انہیں دوسری جانب سے مل گیا ہیں تو ان کے لئے اچھی سوچ رکھتا ہوں یقینا وہ صوفی ازم کو فروغ دیں گے۔ آخری بات آپ کے تفنن طبع کے لئے کہ میلہ مویشیاں نواب آف کالا باغ کے زمانے میں بھی ہوتا تھا اس زمانے کے مشرق اخبارمیں صفحہ اول پر ایک تصویر بلکہ تصاویر چھپ گئی تھیں۔ میلہ مویشیاں کی ایک تصویر سانڈ کی تھی اور نیچے لکھا تھا نواب آف کالا باغ دوسری نواب صاحب کی تھی اور نیچے لکھا تھا میلہ مویشیاں میں جیتنے والا سانڈ صبح ہوتے ہی مشرق کا سارا عملہ نکل پڑا اخباریں سمیٹنے کے لئے اور پھر گورنر ہائوس جا پہنچے معافی طلب کرتے نواب صاحب سمجھدار تھے تردید سے بھی منع کر دیا اور کہ آئندہ احتیاط۔