بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی سے بذریعہ ٹرین جنوبی بھارت کے شہروں کی طرف سفرکرنا ایک ایڈونچر سے کم نہیں ہے۔ چنائی یعنی مدراس تک یا پھر کیرالہ تک پہنچنے کیلئے تقریباً پچاس یا اس سے بھی زیادہ گھنٹے مسلسل ٹرین میں بیٹھ کر کئی نئے تجربات تو ہوتے ہی ہیں، مگر مہاراشٹر کے آخری ٹرین اسٹیشن بلارپورکراس کرنے کے بعد ایک عجب طرح کا کلچرل شاک بھی ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ بالکل ایک نئی دنیا شروع ہو رہی ہے۔ شمالی بھارت کے شور شرابہ کی جگہ ایک عجیب سی خاموشی چھا جاتی ہے ۔ٹرین کے ڈبے اور اس کا فرش بھی اب صاف و شفاف نظر آنے لگتا ہے۔ راستے میں جو چھاپڑی فروش ٹرین میں سوار ہوکر چیزیں بیچتے تھے اور اکثر مسافروں کی چیزیں ہی ہوا کردیتے تھے، وہ اب نظر آنا بند ہو جاتے ہیں ۔ لوگوں کا طرز عمل ، بات چیت کا طریقہ غرض ہر چیزتبدیل ہو جاتی ہے۔ اس تبدیلی کا مطلب ہے کہ ٹرین وندھیا چل کے پہاڑوں کو عبور کرکے سطح مرتفع دکن یا جنوبی بھارت میں داخل ہو گئی ہے اور اب چند لمحوں میں تلنگانہ صوبہ کا کریم نگر یا ورانگل کا اسٹیشن آنے والا ہے۔ ابھی حال ہی میں بھارت میں ہوئے پانچ صوبوں کے انتخابات کے نتائج نے بھی واضح طور پر شمال اور جنوب کی تقسیم کو ظاہر کیا ہے۔ان پانچ ریاستوں میں شمالی بھارت کے راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے جیت حاصل کی، جنوبی بھارت کی تلنگانہ ریاست میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی، وہیں شمال مشرق کی چھوٹی ریاست میزورام میں ایک مقامی پارٹی کو اقتدار حاصل ہوگیا۔کئی ماہ قبل جنوبی بھارت کے ایک اور صوبہ کرناٹک میں بھی کانگریس نے کامیابی حاصل کی تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق تلنگانہ میںہار کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی کیلئے جنوب کے دروازے بند ہو گئے ہیں اور چند ماہ بعد عام انتخابات میں ان کو شمالی بھارت میں ہی دائو لگانے پڑیں گے۔543 رکنی پارلیمنٹ میں جنوبی بھارت کی 132، جبکہ شمالی بھارت کی 411نشستیں ہیں۔ جنوب کی پانچ ریاستوں کی حکومتوں کی قیادت ۔۔تامل ناڈو میں دراوڑ منیترا کزگم یعنی ڈی ایم کے، کیرالہ میں کمیونسٹ فرنٹ، آندھرا پردیش میں مقامی وائی ایس آر کانگریس پارٹی، تلنگانہ، اور کرناٹک میں کانگریس کرتی ہیں۔ پچھلے نو سالوں میں، اپنی مقبولیت کی چوٹی پر پہنچنے کے باوجودمودی جنوبی قلعے کو سر کر نہیں سکے۔ دونوں اطراف میں سمندر اور اسکے باشندوں کی محنت، لیاقت اور تعلیم کی وجہ سے جنوبی بھارت پورے جنوبی ایشیا کی اقتصادیات کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ بنگلور، کرناٹک کا دارالحکومت دوسری سلیکون ویلی ہے اور بھارت کی سافٹ ویئر کی برآمدات میں اس کا ایک تہائی حصہ ہے۔ تامل ناڈو ناڈو مینوفیکچرنگ اور زراعت کے لیے جانا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ خوراک میں خود کفیل ہے، بلکہ بھارت سے ذاتی گاڑیوں کی دو تہائی برآمدات صرف اسی صوبہ سے ہوتی ہے۔آندھرا پردیش اور تلنگانہ دواسازی کے مرکز کے طور پر جانے جاتے ہیں۔کیرالہ نہ صرف بھار ت کی سب سے تعلیم یافتہ ریاست ہے، بلکہ سیاحت کے مرکز کے بطور اس کا خاصا نام ہے۔ اسکا انسانی ترقی کا انڈکس امریکہ کے برابر ہی ہے۔ چاہے خلائی لیبارٹری ہو یا دفاعی یا کوئی اعلیٰ تکنیکی ادارہ، یہ سبھی جنوبی بھارت میں ہی ہیں۔ یعنی یہ کہنا بجا ہوگا کہ جنوبی بھارت ہی پورے بھارت کو پالتا ہے۔اگر یہ صوبے نہ ہوتے، تو بھارت کا حال برونڈی اور صومالیہ سے بھی بدتر ہوتا۔ اعداد و شمار کے مطابق اگر اتر پردیش سے مرکزی حکومت کو ایک روپے بطور ٹیکس ملتا ہے، تو اس کے بدلے اسکو ایک روپے پچاس پیسے واپس کرنے پڑتے ہیں، جبکہ تامل ناڈو سے ایک روپے کا ٹیکس لیکر وہاں بس چالیس پیسے واپس دینے پڑتے ہیں۔ یعنی یہ صوبے آمد ن کے حوالے سے خود کفیل ہیں اور مرکزی حکومت کے بجٹ کا بھار بھی اٹھاتے ہیں۔ چونکہ یہ علاقہ شمالی بھارت سے بالکل ہی مطابقت نہیں رکھتا ہے، بیسوی صدی کے اوائل میں پیریار ای وی راما سوامی کی قیادت میں جسٹس پارٹی نے ایک الگ وطن دراوڈ ناڈو کا مطالبہ کیا تھا۔ دراصل اس تصور کی جڑ تامل ناڈو میں برہمنیت مخالف تحریک میں تھی، جس کی قیادت پیریار کرتے تھے اور انہوں نے سماجی مساوات اور حکومتی انتظامیہ میں زیادہ نمائندگی کی تحریک بھی شروع کی تھی ۔ بعد میں یہ تحریک دم توڑ گئی، کیونکہ ان صوبوں کو لگا کہ نئی دہلی میں بر سر اقتدار پارٹیوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ سے ان کو زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ شمالی ریاستوں کے مقابلے جنوبی ریاستوں میں آبادی میں اضافے کی شرح میں تیزی سے کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں، جنوب میں غیر ہنر مند مزدوروں کی کمی ہے جو اس وقت شمالی حصوں سے ہی مہیا ہوتے ہیں۔ خیر ذکر ان صوبائی انتخابات کا ہو رہا تھا۔ گو کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کے نتائج کا اثر چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات پر نہیں پڑتا ہے، مگر سیاسی جماعتیں ان سے نتیجہ اخذ کرکے اپنے بیانہ کو ترتیب دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر، دسمبر 2018 میںہوئے ان ریاستی انتخابات میںبی جے پی کو شکست ہو گئی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت میں 30پوائنٹ کی کمی واقع ہو گئی تھی۔ جس کی وجہ سے بی جے پی نے ایک پاکستان مخالف بیانیہ ترتیب دیکر قومی سلامتی کو ایشو بناکر چند ماہ بعد عام انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر سینٹرل پولیس فورس کے اہلکاروں کی ہلاکت نے اس میں انکو مدد دی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ اب شمالی بھارت میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے، اس لئے اب اسکو پاکستان مخالف بیانئے یا قومی سلامتی کو ایشو بنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پچھلے کئی صوبائی انتخابات میں کانگریس کے لیڈران بھی ہندوووٹروں کو لبھانے کیلئے مندروں کے دورے کرکے ، مفت ہندو یاترائوں کا انتظام کرکے اپنے آپ کو بی جے پی سے زیادہ ہندو منوانے کے چکر میں ہندو تو کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں۔ ان کی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ جو ووٹر ہندوتوا کی بنیاد پر ووٹ د ے گا، وہ بی جے پی کے بجائے کانگریس کو کیوں ووٹ دیگا؟ ویسے تو راجستھان میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان پانچ سال کے وقفہ کے بعد حکومتیں بدل جاتی تھیں،مگر اس بار کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ گجرات اور مدھیہ پردیش کے بعد ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آرایس ایس) اس صوبہ کو ہندوتوا کی لیبارٹری بنانے پر کمر بستہ ہے۔ اس صوبہ میں ورنہ بی جے پی اور کانگریس میں نظریاتی فرق موجود نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ اس صوبہ میں بی جے پی کے اعلیٰ لیڈران یعنی بھیروں سنگھ شیخاوت، جسونت سنگھ ، وسندھرا راجے، جے پور اوردیگر راجواڑوں کے جان نشین سیکولر ہوتے تھے اور مسلمانوں کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑاتے تھے۔ پچھلے بی جے پی حکومتوں میں یونس خان، حبیب الرحمان وغیرہ تو وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ مگر اس بار بی جے پی نے کسی مسلمان کو میدان میں نہیں اتارا۔ الوار سے بے جے پی کے امیدوار بابا بالک ناتھ، جن کا مد مقابل کانگریس کا امیدوار عمران خان تھا، نے انتخابات کو بھارت اور پاکستان کی جنگ بنادیا تھا۔ سرحدی ضلع جسلمیر کے شہر پوکھران سے پاکستان میں سکھر کے گدی نشین پیر پگاڑہ کے خلیفہ صالح محمد بھی اس بار الیکشن ہار گئے ہیں۔ ان کے خلاف بی جے پی نے تاراتارا مٹھ کے مہنت سوامی پرتاپ پوری مہاراج کو ٹکٹ دیکر انتخابی جنگ کوہندو بنام مسلمان بنا دیا تھا۔ خیر جنوبی بھارت کی اہم ریاست تلنگانہ پر قبضہ کرکے کانگریس نے کسی حد تک اپنے وقار کو بچایا۔ چونکہ اب ا سکے پاس دو اہم ریاستیں کرناٹک اور تلنگانہ ہیں، اس لئے اپریل۔مئی 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کیلئے اس کو کسی حد تک وسائل مہیا رہینگے۔ ان انتخابات میں جس طرح کانگریس کا شمالی بھارت سے ایک طرح سے صفایا ہوگیا ، اس سے یہ صاف ہوگیا کہ وہ خو د اکیلے بی جے پی کو شکست دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ گاندھی خاندان کے افراد راہول یا ان کی ہمشیرہ پرینکا گاندھی ہجوم تو جمع کرسکتی ہیں، مگر اس کو ووٹوں میں تبدیل کرنے سے قاصر ہیں۔