مکرمی !بلوچستان میں 28 جولائی کو ہونے والی طوفانی بارشوں اور پھر اس کے بعد سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے والے سینکڑوں خاندان مشکلات سے دوچارہو چکے ہیں‘کئی شہروں میں نکاسی آب نہ ہونے کی وجہ سے سڑکیں تالاب کا منظر پیش کر رہی‘ پانی گھروں سے اندر جا رہا ہے ۔سیلاب ہر سال ملک میں آتا ہے‘ اس پر اربوں روپے کے فنڈ صَرف کیے جاتے ہیں اور اس کے نقصانات کا باریک بینی سے تخمینہ لگایا جائے تو اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ ریلیف آپریشن پر آنے والے اخراجات سے کم بجٹ میں ڈیم کی تعمیر ممکن ہے‘ ہم سیلاب اور اُس کی تباہ کاریوں کو تاریخ کا حصہ سمجھ کر بھول جاتے ہیں لیکن یاد رکھیں جو قومیں اپنی تاریخ سے راہِ فرار اختیار کرتی ہیں وہ ہمیشہ ناکامی و رسوائی کا سامنا کرتی ہیں‘ تاریخ انہیں مٹا دیتی ہے‘ بھلا دیتی ہے‘ ایسا ہی کچھ سیلاب کے آنے اور چلے جانے کے بعد ہمارے ملک و عوام کے ساتھ ہوتا ہے - اپنی مدد آپ کے تحت کرنیوالے ادارے‘ جماعتیں محدود وسائل میں لامحدود کام منظم پلاننگ و حکمتِ عملی سے سر انجام دیتے ہیں۔قدرتی آفات سے بچا تو نہیں جا سکتا‘ لیکن بروقت منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے انسانی جانوں کا ضیاع کم کیا جا سکتا ہے۔ (عابد ضمیر ہاشمی ،آزاد کشمیر)