آپ کو پاکستان میں ایسے دانشور اور عالی دماغ منصوبہ ساز جا بجا نظر آئیں گے جو پاکستان کے مسائل کی بنیادی وجہ آبادی میں بے پناہ اضافے کو بتائیں گے۔ رزق کی پیمائش اور انسانوں کی بہتات کے تناسب کو ناپنے تولنے والے ان ’’زمینی خدائوں‘‘ کا موجد اعلیٰ مالتھس (Malthus) تھا، جس نے 1798ء میں اپنی مشہور کتاب "An Essay on the Principle of Population"، ’’آبادی کے اُصولوں پر ایک مضمون‘‘ کے نام سے تحریر کی۔ اس کتاب میں اس نے بنی نوع انسان کو خبردار کیا کہ کرۂ ارض پر انسانوں کی آبادی میں اضافہ کی شرح لامحدود ہے، جبکہ اس زمین پر پیداوار کیلئے قابلِ کاشت علاقے بہت محدود ہیں۔ وسائل کی اس محدودیت کی وجہ سے ایک دن ایسا آ جائے گا، جب زمین انسانوں سے اس قدر بھر جائے گی کہ نہ کہیں فصل اُگ سکے گی اور نہ ہی خوراک والے جانور رہ سکیں گے، تو پھر ایسے حالات میں انسان انسانوں کو کھانے لگے گا۔ یہ برطانوی معیشت دان جسے "Prophet of Population" یعنی ’’آبادی کا پیغمبر‘‘ کہا جاتا ہے، جس دور میں تھیوری پیش کر رہا تھا تو اس وقت یورپ تقریباً پوری دنیا کو اپنی کالونی بنانے میں سرگرم تھا۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور شمالی امریکہ پر برطانیہ کا، افریقہ پر فرانس کا، جنوبی امریکہ پر سپین اور مشرقِ بعید پر ہالینڈ کا قبضہ تھا۔ دنیا کے یہ خطے چونکہ وسائل سے مالا مال تھے، اس لئے یورپ سے لوگ ہجرت کر کے ان علاقوں میں آباد ہونے لگے۔ 1846ء سے 1890ء تک یورپ سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد سالانہ 30 لاکھ 70 ہزار تھی، اس کے بعد 1891ء سے 1910ء تک یہ تعداد 9 لاکھ 11 ہزار اور 1910ء سے 1930ء آنے تک یورپی نسلوں کی پانچ کروڑ آبادی دنیا کے ان محکوم خطوں میں جا بسی تھی۔ یہ خطے ایسے تھے جو وسائل سے مالا مال تھے، جیسے ہندوستان جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ امریکہ کے دونوں براعظموں میں ’’مالتھس‘‘ کے اُصولوں پر کام کرنے کا ایک ’’خوفناک سنہری‘‘ طریقہ اختیار کیا گیا کہ وہاں پر موجود ریڈ انڈین آبادیوں کا مکمل قتلِ عام کر کے انہیں صفحۂ ہستی سے ہی مٹا دیا گیا۔ کولمبس کا 1492ء میں امریکہ دریافت کرنا دراصل ایک مسلسل نسل کشی کا نکتۂ آغاز تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شمالی اور جنوبی امریکہ کے برِاعظموں میں رہنے والے دو کروڑ ریڈ انڈین قتل کئے گئے۔ جو بچ نکلے انہیں ’’مہذب جمہوری حکومتوں‘‘ نے چند مخصوص علاقے (Reservations) بنا کر اور انہیں ان میں رکھ کر ایک تماشہ گاہ بنا دیا گیا یا پھر وہ خوف کے مارے خود ہی ایمزون جیسے جنگلوں میں جا کر آباد ہو گئے۔ اسی طرح آسٹریلیا میں آباد ڈھائی لاکھ مقامی (aboriginies) میں سے دو لاکھ کے قریب قتل کر دیئے گئے یا انہیں بھوک اور بیماری سے مار دیا گیا۔ اس قتلِ عام کے نتیجے میں امریکہ کے دونوں براعظم، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ آج ایسے لگتے ہیں جیسے یہاں کبھی گوروں کے سوا کوئی اور آباد ہی نہیں تھا۔ معاملہ ایشیا اور افریقہ پر آ کر پھنس گیا جن کی بڑھتی ہوئی آبادی دنیا میں ان آبادکار طاقتوں کے لئے دن بدن خطرہ بننے لگی۔ دوسری جانب یورپ میں خاندانی زندگی کے ٹوٹنے، جنسی تعیش پسندی اور انفرادی دوڑ نے مانع حمل طریقوں کا چلن عام کر دیا اور یورپ کی آبادی آہستہ آہستہ سکڑنے لگی۔ ایک جانب یورپ کی آبادی کم ہوئی رہی تھی اور دوسری طرف ایشیاء اور افریقہ کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ اسی خوف کی وجہ سے برطانیہ کے بادشاہ جارج ششم نے 1944ء میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جس کا نام تھا، "Royal Commission of Population" ۔ اس کمیشن نے یہ رپورٹ مرتب کی کہ ہماری محکوم کالونیوں میں آبادی میں تیز رفتار اضافے کی وجہ سے ہمیں شدید معاشی خطرات لاحق ہیں اور ایک دن ایسا آ سکتا ہے کہ ہمارے لئے ان علاقوں کو اپنے زیر نگیں رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے ساتھ ہی دوسری جنگِ عظیم کا بھی خاتمہ ہو گیا اور اب دنیا پر یورپ کی ان عالمی طاقتوں کا راج تقریباً ختم ہو گیا۔ ایک معاہدے کے تحت کالونیاں آزاد ہونے لگیں اور امریکہ نے دنیا کو اپنی معاشی قوت سے غلام بنانا شروع کر دیا۔ خود تباہ حال یورپ بھی اپنی تعمیر نو کے لئے مارشل پلان کے تحت امریکہ ہی کا دست ِ نگر ہو گیا اور اسے اپنی حفاظت کے لئے ’’نیٹو‘‘ جیسے اتحاد میں شامل ہونا پڑا۔ امریکہ نے جیسے ہی دنیا پر بذریعہ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) اور سودی مالیاتی نظام سے معاشی غلبہ اور کنٹرول حاصل کیا تو اسے فوراً وہی فکر لاحق ہوئی جو برطانیہ کے جارج ششم کو ہوئی تھی یعنی امریکہ کو بھی ایشیاء اور افریقہ کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خوف آنے لگا۔ 1974ء وہ سال ہے جب امریکہ نے عالمی سطح پر پٹرول کی خریداری کو ڈالر کے ساتھ منسلک کروا کر اپنے ’’کاغذی ڈالر‘‘ کو دنیا کی واحد معاشی حقیقت بنا لیا تھا، تو اسی سال، 10 دسمبر 1974ء کو کسنجر رپورٹ کے نام پر ایک خوفناک منصوبہ تیار کیا گیا، جسے: "National Security study Memorandum NSSM-200" کہتے ہیں۔ یہ خفیہ دستاویز اب نیشنل سکیورٹی آرکائیوز میں منظر عام (Declassify) پر آ چکی ہے۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے: "Implications of Worldwide Population Growth for U.S. Security and Overseas Interest" یعنی ’’امریکہ کی سکیورٹی اور بیرونی دنیا میں مفادات پر دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے اثرات‘‘۔ یہ رپورٹ پانچ مختلف محکموں نے مل کر تیار کی جن میں سی آئی اے، وزارتِ خارجہ، وزارتِ دفاع، یو ایس ایڈ اور وزارتِ زراعت شامل تھے۔ اس رپورٹ کے بعد امریکہ میں جتنے بھی پالیسی پیپرز لکھے گئے، عالمی منصوبے بنائے گئے یا مہمات شروع کی گئیں، ان سب میں یہ رپورٹ بنیادی اور کلیدی حیثیت رکھتی رہی ہے۔ اس رپورٹ کا بنیادی مقصد دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنا اور اس کے ذریعے پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقوں کو اپنے قبضے میں رکھ کر ان کے معدنی وسائل کو اپنی دسترس میں لانا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایسے تمام ممالک جن میں آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے وہاں زبردستی اسے کنٹرول کرنے کے لئے آبادی کم کرنے کے عالمی پروگرام شروع کروانا ہوں گے اور ساتھ ہی ان ملکوں میں سخت قانون سازی کے ذریعے آبادی کو بڑھنے سے روکنا ہو گا۔ اگر ان تمام ملکوں کی آبادی اس قانونی اور ترغیباتی طریقے سے بھی کم نہ ہو رہی ہو تو پھر ان ملکوں کو آپس میں لڑانا یا پھر ان پر جنگیں مسلّط کرنا ہوں گی تاکہ لوگوں کی کثیر تعداد ختم ہو جائے۔ ان ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، نائیجیریا، میکسکو، انڈونیشیا، برازیل، فلپائن، تھائی لینڈ، مصر، ترکی، ایتھوپیا، اور سوڈان وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام ممالک کے لئے اقوام متحدہ کے تحت پاپولیشن فنڈ قائم کیا گیا اور اس کے بینر کے تحت تمام ملکوں میں پاپولیشن کنٹرول کے پروگرام شروع کئے گئے جن میں سب سے اہم اسقاطِ حمل کو جائز قرار دینا تھا۔ جو ملک اسقاطِ حمل پر قانون سازی کرے گا اس کی امداد میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ مانع حمل ادویات کی مفت تقسیم اور مستقل نس بندی کی سہولیات ارزاں طور پر یا مفت فراہم کرنا شامل تھا، بچوں کے نصاب میں آبادی کے بڑھتے خطرات کے مضامین شامل کرنا اور کسی بھی ملک میں اگر قدرتی آفات آئیں تو ان کی پیش بندی کے لئے اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنا ضروری تھا۔ سب سے اہم یہ تجویز تھی کہ ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کے لئے ٹرانسجینڈر کے حقوق کو انسانی حقوق میں سب سے زیادہ اہمیت دی جائے تاکہ مرد اور مرد اور عورت اور عورت کے جنسی تعلقات اور شادی کو عام کیا جا سکے۔ (جاری ہے)