بھارتی ریاست ہریانہ اورریاست پنجاب کے مشترکہ دارالحکومت چندی گڑھ میںپنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش، اور اتراکھنڈ سمیت شمالی ریاستوں میں اچانک آئے سیلاب کے سبب ہوئے نقصان کے معاوضہ سے متعلق مطالبات کو لے کر 16 کسان یونینوں نے 22 اگست 2023سے مطالبات کے منظور ہونے تک چنڈی گڑھ کے گھیرائو کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ہریانہ اورپنجاب کی حکومتوں نے کسانوں کی اس دھمکی سے قبل کسان یونینوں کے 16 لیڈروں کو حراست میںلے لیاہے۔سیلاب متاثرہ لوگوں کو راحتی رقم نہ ملنے کے احتجاج میں ہونے والے مظاہرہ سے چندیوم قبل ہی کسان مزدور سنگھرش سمیتی کی قیادت میں 16 یونینوں کے کسان لیڈروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔بھارت میںمون سون کے دوران حالیہ سیلاب اورحکومت کی بے توجہی کے باعث فصل کی بربادی نے کئی ریاستوں کے کسانوں کو بے حال کر دیا ہے۔ ایسے میں چندی گڑھ میں کسانوں کی تحریک پھر سے اڑان بھرنے کے لئے کمرکس رہی ہے اور تحریک 22 اگست2023 کو شروع ہونے والی ہے جس میں حکومت سے برباد فصل کے لیے معاوضہ سمیت کچھ دیگر مطالبات بھی رکھے جائیں گے۔ واضح رہے کہ پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش، چندی گڑھ اور اتراکھنڈ سمیت شمالی ریاستوں میں اچانک آئے سیلاب سے ہونے والے نقصان کے معاوضہ سے متعلق مطالبات کو لے کر ان ریاستوں کی16 کسان یونینوںکے ریاستی صدور سریش کوتھ کا کہنا ہے کہ مون سون کے دوران آئے سیلاب کے سبب 20 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے، جس کا ازالہ کیاجائے۔ہرزرعی ملک کا انحصار زراعت پر ہوتاہے، اسی لئے کہاجاتاہے کہ کسانوںکے کھردرے ہاتھوں کوچوم لیناچاہئے مگر یہ بھارت ہے کہ جہاں کسانوں کے زندگی اجیرن ہے اورخوف کے سائے ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ ہاتھوں کو کاٹا جا رہا ہے۔ انہیں اپنی کھیتوں سے بے دخل کیاجارہاہے اور ان کے کھیت کارپوریٹ گھرانوں کوسونپے جارہے ہیں، جس سے ان کی حیثیت ایک بندھوا مزدور کی ہوکر رہ جائے گی۔ بھارتی کسانوں کایہ خوف محض ایک وہم نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے۔اگرچہ اس باربھی پہلے ہی کی طرح کسانوں کے ساتھ مذاکراتی دور چلایا جا رہا ہے لیکن مودی سرکارکی نیت خراب ہے اس لئے یہ ڈھکوسلہ کے سواکچھ نہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب دھوکہ دہی کی نیت ہوتوکسان کے مسائل کا حل کیونکرنکل سکے گا ۔سال2014سے ہم مسلسل دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ساتھ بھارتی کسان بھی مودی رجیم کے نشانے پر ہیں اوران کے حقوق کوبالجبرروندنے کی کوششیں جاری ہیں۔دسمبرسال2020میں لاکھوںبھارتی کسان کڑاکے کی سردی میںکھلے آسمان تلے نہایت بے کسی کے عالم میں اپنے مطالبات کو لیکر دھرنا دیئے بیٹھے تھے اوراس تحریک کا دورانیہ سال2021کے ابتدائی مہینوں تک طول پکڑ گیا۔ اس دوران یہ بات کھل کر سامنے آئی تھی کہ مودی سرکار نے بوکھلاہٹ کے عالم میں کسان لیڈروں پر الزام یہ لگایا گیاہے کہ وہ پنجاب اور ہریانہ میں خالصتانی تحریک چلاکرکسانوں کو بھڑکا رہے ہیں۔یہ تاثر دینے کی دانستہ کوشش کی گئی تھی کہ اس تحریک میں تنہا پنچاب کے کسان شامل ہیں اوریہ خالصتان بنانے کی سرگرمیاں ہیں اوراسکے پیچھے پاکستان ہے ۔ مگر جب تحریک کا دائرہ بڑھنے لگا اور دوسری ریاستوں کے کسان بھی اس تحریک میں عملا شامل ہوگئے تو کہاگیاکہ اس تحریک کولانچ کرنے والاصرف پاکستان نہیں بلکہ چین سے بھی اسے چلارہاہے،لیکن اس طرح کا ہر حربہ تادم تحریر ناکام ثابت رہا ہے۔ اس طرح کسانوں کی تحریک کو خالصتانی تحریک قرار دے کر ڈرایا دھمکایا گیا تاکہ کسان اپنے لیڈروں کو میدان میں تنہاچھوڑ کر گھر چلے جائیںلیکن ہم نے دیکھا کہ اس پروپیگنڈے کا کسان تحریک پر عشر وعشیر اثر بھی نہیں پڑابلکہ اس الزام نے کسانوں کی تحریک کو تقویت ملی ۔اس بات کااندازہ اس وقت ہواکہ جب کسان بھارتی دارالحکومت دہلی کے چار اطراف محاصرے میں لے چکے تھے اوران تمام راستوں پروہ خیمہ زن تھے جودلی کی جانب جاتے ہیں۔ ایسالگ رہاتھا کہ کسی دوسرے ملک کی فوج نے دہلی کاگھیرائوکررکھاہے اورکہہ رہی ہے کہ ’’ملک ہمارے حوالے کرویاپھر جنگ کے لئے تیاررہو‘‘ یہاں اس امرکاتذکرہ ناگزیر ہے کہ مودی کے تنخواہ داروں اورمراعات یافتہ گان نے کسان تحریک کو ختم کرانے کے لئے بھارتی سپریم کورٹ کا سہارا لیا تھا مگر وہاں سے ان کے نصیب میں ناکامی اورنامرادی آئی۔ دراصل جب بی جے پی اورمودی اقتدارکی کرسی پربرا جماںہوئے تووہ بھارت کے ہر سیاہ وسفید کا مالک بن گئے۔مودی اینڈ کمپنی نے بھارت میں خوف کاایک ایساماحول پیداکیا کہ مودی سرکار کچھ بھی کرے اس کی مخالفت کوئی نہیں کرسکتا۔ کسانوں کی فلاح وبہبودکی آڑ میں زرعی قوانین چور دروازے سے لائے گئے۔ بظاہر دعوی کیا جا رہا ہے کہ ملک کے کسانون کی بہتری کیلئے اس طرح کے قوانین کی اشد ضرورت تھی، ان سے کسانوں کو بے پناہ فائدہ پہنچے گا لیکن ایک ساتھ جس طرح تین قانون منظور کیے گئے اسکے پیچھے درحقیقت کسانوں کو نہیں بلکہ کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ کارپوریٹ گھرانے بھی وہی گھرانے ہیں ۔ نریندر مودی کے منظور نظر ہیں یعنی امبانی اور اڈانی، یہ سچائی بھی سامنے آچکی ہے کہ ان قوانین کی منظوری سے پہلے ہی امبانی اور ایڈانی نے اناج اسٹور کرنے کیلئے منصوبہ بندی شروع کردی تھی اور کئی جگہ انکے بڑے بڑے گودام بھی بن کر تیار ہوچکے تھے، ایسے میں ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ زرعی قوانین ان دونوں کارپوریٹ گھرانوں کی مرضی اور منشا کے مطابق تیار کیے گئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب جب بھارت کا کسان اسکے خلاف سراپا احتجاج بن کر دہلی کی سرحد تک آپہنچا ہے۔ کسانوں کی تحریک کو پنجابی کسانوں کی تحریک قرار دینے کی کوشش ہو رہی تھی آج وہ بڑھ کر بھارت کے تمام کسانوں کی تحریک بن چکی ہے اوربھارت کے تمام کسان بیدار ہوچکے ہیں اور کسان تحریک کے ساتھ جڑچکے ہیں۔بھارتی کسانوں نے ایک ہوکر ایک بار پھر مودی سرکار کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ 2020اور2021کی کسان تحریک کی طاقت اور اسکی صورتحال سامنے رکھتے ہوئے اس بات میں کوئی ابہام نہیں رہتا کہ جب یہ تحریک چل پڑتی ہے تو اپنے مطالبات منواتی اور تسلیم کرواتی ہے ۔