حالیہ تین مارچ 2021ء کے سینٹ انتخابات میں تحریک انصاف کی روش صوبے میں باعث حیرت رہی ۔ بلوچستان اسمبلی میں 7 ارکان کی عددی نمائندگی کے ساتھ اچھی خاصی قوت کے باوجود بلوچستان ت میں تحریک انصاف ابہام کی شکار رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہاں اپنی جماعت اور اس کے آئینی اداروں کو زرہ برابر اہمیت نہیں دے رکھی ہے ۔ تحریک انصاف نے عبدالقادر کو ٹکٹ دیا پھر چند رہنمائوں کے احتجاج پر فیصلہ واپس لے کر پارٹی کے رہنماء ظہور آغا کو ٹکٹ جاری کردیا۔ ظہور آغا اور صوبائی کی تنظیم پر واضح ہے کہ اس افراتفری میں ان کی اہمیت ہی نہیں ہے ۔ نا ہی اراکین اسمبلی کی ترجیح میں ظہور آغا تھے ۔ عبدالقادر نے اگرچہ آزاد حثیت میں کاغذات جمع کروائے تھے۔ جس کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی نے ان کی بھرپور حمایت کرکے انہیں ا پنا امیدوار قرار دیا ۔ چنانچہ 25 فروری کو ظہور آغا کو پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے کاغذات واپس لینے ہدایت کردی، جس پر ظہور آغا نے فوری عمل کیا ۔ یعنی ان کے لئے یہی عزت کا راستہ بچا تھا ۔ درحقیقت قادر سے ٹکٹ لینا محض کارکنوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا تھا کیوں کہ عبدالقادر تب بھی تحریک انصاف کا محبوب تھا اورظہور آغا کو عبدالقادر کے حق میں ہی دستبردار کرایا گیا ۔ ویسے بھی کروڑ ںروپے کے ا س کھیل میں ظہور آغا کی سرے سے کوئی گنجائش نہ بچی تھی ۔ تحریک انصاف نے اپنے صوبائی صدر سردار یار محمد رند کو بھی در خور اعتنا نہیں سمجھا ۔ حالانکہ وہ بلوچستان اسمبلی کے رکن ہیں۔ اسمبلی میںپارٹی کے پارلیمانی قائد ہونے کے ساتھ وزارت تعلیم کا قلمدان بھی ان کے پاس ہے،اس کے علاوہ وہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے معاون خصوصی بھی ہیں۔چنانچہ سردار یار محمد رند پارٹی فیصلے اور رویے کے برعکس اپنے بیٹے سردار خان رند کے لئے یکسوں ہوئے ہیں ۔ گویا یہ عملاً پارٹی اعلیٰ قیادت کے خلاف احتجاج یا دوسرے معنوں میں تحریک انصاف کے سود زیاں سے مزید لا تعلقی کا اظہار ہے۔ سردار یار محمد رند 23 فروری کو ایک ٹی وی چینل سے اس رویے پر گفتگو میںچیئرمین سینٹ صادق سنجرانی پر برسے ہیں، کہ سنجرانی کا پاکستان تحریک انصاف سے کیا تعلق ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ سنجرانی کی کوئی اہمیت ہے اور نہ سیاسی پس منظر رکھتے ہیں۔ سردار یار محمد رند کہہ چکے ہیں کہ وہ بلوچستان کی کابینہ کے رکن ہیں مگر اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان 5 منٹ کے لئے بھی وقت نہیں دیتے۔ سینٹ انتخابات میں تحریک انصاف کی جانب سے تشکیل دئیے گئے پارلیمانی بورڈ میں بلوچستان کو نمائندگی نہیں دی گئی اور جام کمال نے بھی انہیں’’ فار گرانٹڈ ‘‘لیا ہے۔ ان کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں لیکن پارلیمانی لیڈر کے حیثیت سے انہیں صوبائی کابینہ کے فیصلوں میں اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ ظاہر ہے جب اپنی جماعت اور اعلیٰ قیادت نے ان سمیت صوبے کی جماعت کو نظر انداز کر رکھا ہے تو جام کمال یا دوسرے انہیں کیوں اہمیت دیں گے۔ ان رویوں سے تحریک انصاف کی جمہوریت پسندی اور سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ یقینا سیاست اور سیاسی جماعتیں جمہوری اصولوں اور روایات کی حامل نہ ہوں گی تو عبدالقادر اورستارہ ایاز اور ثمینہ ممتاز جیسے لوگ ہی دولت کے زور پرصوبے پر مسلط ہوں گے ۔ عبدالقادر اور ستارہ ایاز کی طرح ثمینہ ممتاز بھی پیراشوٹر ہیں۔ جن کی وابستگی بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے ۔یہ خاندان سندھ سے تعلق رکھتا ہے شوہر ان کے سرمایہ دار ہیں۔ اس خاتون نے مارچ 2018ء کے سینٹ انتخابات میں بھی انٹری دی تھی جبکہ عبدالقادر نے تو دو ہزار اٹھارہ سے پہلے اپریل 2004ء کے سینٹ انتخابات میں بھی سینیٹر بننے کے جتن کیے تھے۔ تب ملک میں جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی قائم تھی۔ بلوچستان میں مسلم لیگ قائد اعظم کی حکومت تھی۔ جام کمال کے والد جام یوسف مرحوم وزیراعلیٰ تھے ۔ اس وقت کے احوال سے ایک شناسا کی روایت ہے کہ عبدالقادر کو سعید ہاشمی کا تعاون حاصل تھا۔ اور عبدالقادر کروڑوں روپے گاڑی میں لئے اراکین اسمبلی کے ضمیر خریدنے میں سرگرداں رہے، سعید ہاشمی ان کے لیے لابنگ کر تے رہے۔ مگر شایددولت کے بروقت اور ٹھیک ٹھیک استعمال نہ کرسکنے کی بنا پر سینیٹر بننے کے ارمان لئے دوبارہ اسلام آباد کے راہ لی ۔ چنانچہ مارچ 2021ء کے سینٹ انتخابات میں اسی مکتبہ سیاست کے غول میں رہے۔ جو کبھی مسلم لیگ قائداعظم کے رنگ میں رنگے ر ہا۔ پھر مسلم لیگ نواز میں اکھٹا ہوگیا تھا۔ اور اس بار بلوچستان عوامی پارٹی میں جمع ہو چکے ہیں۔ اندر کا حال جاننے والے کہتے ہیں کہ اس بار رقم کی لین دین کے ضمن میں الگ میکینزم بنایا گیا۔ جس کے تحت ووٹ فروخت کرنے والے ارکان اسمبلی کو براہ راست رقم دینے کی بجائے امیدوار رقم بنائے گئے پُول میں جمع کرتے۔ یوں ا س’’ پُول‘‘ سے رقم کی تقسیم ہو گی !و اللہ اعلم بالصواب۔ بہر کیف بلوچستان میں تحریک انصاف کی سیاست شایدمزید پر کشش نہ رہے ۔ حالیہ سینیٹ انتخابات میں بلوچستان کے حوالے سے تحریک انصاف کی پالیسی ، ترجیحات اوراپنی تنظیم کو نظر انداز کرنا خود پر تیشہ چلانے کے مترادف ہے ۔